عورت بغض ! (مسوجنی)اور وہ دوسرا

عورت بغض ! (مسوجنی)اور وہ دوسرا

”عورت کی عزت جس قدر ہمارے یہاں ہے وہ کوئی اور تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ہم عورت کی خاطر جان دے دیتے ہیں۔ عورت کا مقام بہت بلند ہے۔ عورت ہماری نسل کی امین ہے۔
“عورت گھر کی ملکہ ہے۔
سنا یہ سب کچھ۔ سنتے چلے آ رہے ہیں زمانوں سے۔ ہر بار کبھی ہنس دیتے ہیں کبھی منہ پھیر لیتے ہیں، منظور تھا پردہ تیرا۔
اگر آپ وہ نہیں جو ہم سمجھتے اور لکھتے ہیں تو پھر وہ کون ہے، جو عورت پر آوازے کس کر، گالیاں بک کر، مذاق اڑا کر قہقہے لگاتا ہے۔ جو عورت کو ہر قسم کے نام سے پکار کر اپنے اندر کے کھولاؤ کو ٹھنڈا کرتا ہے۔ جس کے نزدیک عورت کی کسی بھی گستاخی کا حل ایک ہی ہے۔ اس کی ویجائنا تک جا پہنچو، تاکہ وہ ہکا بکا کچھ بول ہی نہ سکے اور اس کی گردن آپ کے کہے الفاظ کے بوجھ سے جھک جائے۔ ایسا کرنے میں گلی گلی کے تھڑوں پر بیٹھوں سے لے کر خود ساختہ دانشوری کے تاج پہنے ہووں تک سب مرد شامل ہیں۔
اس رویے کو دنیا بھر میں ایک نام دیا گیا ہے اور وہ ہے مسوجنی۔ اردو میں اسے عورت بغض کہا جا سکتا ہے۔ آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق اس لفظMisogyny کو یونانی زبان سے لیا گیا ہے۔ misos کا مطلب ہے نفرت اور Gyno عورت۔ یہ لفظ سترہویں صدی میں استعمال ہونا شروع ہوا اور عام لوگوں نے ستر کی دہائی میں اسے جانا اور سمجھا۔
مسوجنی عورت کو رد کرنے اور کمتر سمجھنے کا نام ہے۔ آپ لاکھ کہتے رہیں کہ نہیں نہیں، ایسے نہیں ہیں ہم۔ بہت محبت، بہت عزت، بہت احترام ہے عورت کے لیے مگر تب جب وہ ایسی نہ ہو اور ویسی نہ ہو۔ یہ ایسی ویسی کی شرط کے ساتھ عزت اور احترام کا تلا ذمہ۔ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو۔
اگر آپ میں کہیں چھپا ہوا، پوشیدہ عورت بغض تھوڑا سا بھی موجود ہو گا تو جھلکے بغیر نہیں رہے گا۔ آپ کی گفتگو میں، حرکات سے، انداز سے۔ بالکل اسی طرح جیسے کسی سوراخ سے داخل ہوتی سورج کی کرن میں بہت سا گرد و غبار تیرتا ہوا نظر آ جاتا ہے۔
عورت بغض رکھنے والوں کو پہچاننا قطعی مشکل نہیں۔
محفلوں میں بیویوں پر پھبتیاں کس کر قہقہے لگانا، لطیفے سنا کر مذاق اڑانا، عورت کے جنسی اعضا کا نام لے کر گالیاں دینا (خاص طور پہ دوسروں کی ماؤں بہنوں کو) ، تنقید و طنز کے تیر برسانا، عورت کی زندگی کو کنٹرول کرنا، اس کی خواہشات کو جائز اور ناجائز میں رکھ کر فیصلہ سنانا، تعلیم شادی میں عورت کی مرضی کو نظر انداز کرنا، اپنے آپ کو عقل کل سمجھ کر عورت کو خاموش کروانا عورت بغض کی نشانیاں ہیں۔
اچھا اسے چھوڑیں۔ آپ نے سکول کے دنوں میں خالی جگہ پر کرو کی مشق تو کی ہی ہو گی؟ تو اپنی زبان میں دی جانے والی گالیوں کو سامنے رکھتے ہوئے خالی جگہ پر کریں :
تیری تو ماں کی۔
تیری تو بہن کی۔
تیری تو بیٹی کی۔
اور اب دنیا کی اور کوئی بھی زبان۔ جو بھی آپ نے مادری زبان کے علاوہ پڑھی ہو اس کی گالیاں یاد کرنے کی کوشش کریں۔ اور اب ذرا ماں، بہن اور بیٹی کی جگہ باپ، بھائی اور بیٹا رکھ کر دیکھیں۔ کیسا لگتا ہے؟
گالی تک بے مزہ ہو جاتی ہے۔ کیا نہیں؟ منہ خالی خالی لگتا ہے، کیا نہیں؟
سوچیے ایسا کیوں ہے؟
اب یہ نہ کہہ دیجیے گا کہ ہم تو بس ویسے ہی۔ بس تھوڑی سی دل لگی۔ اجی صاحب آپ کی دل لگی کسی اور کے دل کو لگتی ہے اور وہ بھی بہت زور سے۔
یہ سب کہہ کر، ہنس کر، اپنی محفل گل و گلزار بنا کر آپ پیغام دیتے ہیں کہ ایسا کرنا غلط نہیں۔ عورت کا نام لے کر مزاح پیدا کرنے کو بے عزتی نہیں کہتے۔ بس ذرا چھیڑ چھاڑ۔
مشکل یہ ہے کہ یہ جو ایک کلو کا دماغ نامی گودا بھرا ہے نا کھوپڑی میں، وہ یہ سارے الفاظ اور حرکات ریکارڈ کرتا ہے، ریکارڈنگ کے بعد اس ڈیٹا کو analyze کرتا ہے اور پھر نتیجہ یہ نکالتا ہے کہ عورت کی تحقیر یا اسے demean کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ کمتر ہے نا ہم سے۔ سب سن کر یا تو بے بسی سے ہنس کر چپ بیٹھی رہے گی یا تنگ آ کر چیخ پڑے گی۔ چپ رہی تو کوئی نقصان نہیں، چیخ پڑی تو ملبہ اسی کے سر۔ کہ بات بڑھانے میں تمہارا قصور۔ کیوں آواز نکلی تمہاری؟ احتجاج کیوں کیا؟ جانتی نہیں کہ ہم تمہارے جسم، تمہاری عادات اور تمہاری ذات پر پھبتیاں کس کر محفل میں نمایاں ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ عزت، وقار اور جذبات کا احترام تو اتنا ہی ہو گا نا جتنا ہم مقرر کریں اور تب ہی ہو گا جب ہم چاہیں۔
وہ بے چاری کہاں پوچھ سکتی ہے کہ سرکار کیا مجھے بھی اجازت ہے آپ کی چندیا، آپ کی توند اور بے ہنگم شکل پہ ہنس لوں۔ زیادہ نہیں بس تھوڑا سا؟
ایسے تکلیف دہ رویوں کے بعد دماغ جان جاتا ہے کہ اگر مذاق اڑایا جا سکتا ہے تو چلتے چلتے چٹکی کاٹ لینے میں کیا حرج ہے؟ اور یہ ہے وہ راستہ جس کا اختتام ریپ ہے۔ اور وجہ تو اور کوئی نہیں سوائے اس کے کہ۔
کیا کرتے بھئی؟ بہک گئے تھے۔ بندہ بشر ہیں نا۔ بہک گئے۔ تو بس۔
عورت بغض کی تہہ میں یہ خیال موجود ہے کہ عورت ہم جیسی نہیں۔ اس کی جگہ اور مقام کچھ اور ہے، ہمارا کچھ اور۔ کیا کریں بھئی، صدیوں سے یہ نظام ایسے ہی چل رہا ہے۔ تبدیلی مشکل۔
مقام عبرت یہ ہے کہ مرد کے دل میں پوشیدہ عورت بغض کی آگہی عورت کو بھی نہیں۔ وہ بھی اجازت دیتی ہے کہ اس پر ہنسنا، مذاق اڑانا، پھبتی کسنا۔ ارے بھئی سب کرتے ہیں۔ اصل میں ایسے نہیں ہیں یہ۔ کچھ نہیں ہوتا۔
اس تصور کو ہوا دی ہے ان سب ادیبوں شاعروں نے جنہوں نے مزاح تخلیق کرنے کے لیے عورت کو آسان ہدف سمجھا۔ کچھ نے لکھا، کچھ نے پڑھا۔ محفل زعفران زار ہو گئی۔ خود عورت بھی کھسیانی ہو کر دوپٹے میں منہ چھپا کر ہنستی رہی۔
”اس قیامت کا نظارہ کسی کو سامنے سے دیکھ کر نہیں ہوتا، پیچھے سے ہی دیکھ کر کھلتا ہے ( قہقہے ) چال کی چاپ اور چھب چھاپ کیسی ہے، ایک خوبی ہو تو بیان کریں؟ (قہقہے )
لٹک مٹک (قہقہے )
ٹھمک جھپک (قہقہے )
پنڈولم کی مانند دائیں سے بائیں ( قہقہے ) اس طریقے سے رگل کرنا، اور دائیں بائیں لہرا کر چلنا، خرام ناز کے قیامت ڈھانے کے ان گنت انداز ہیں۔ یعنی لہکتی، لچکتی، لہراتی، لجاتی گج گامنی، پیچھے مڑ کر دیکھنا کہ اب بھی کوئی گھور رہا ہے یا سب ہی مر گئے؟ (قہقہے )
پیچھے مڑ کر دیکھنا ضروری نہیں کہ جوان اور خوبصورت عورت کی گدی میں انتہائی حساس اور نظر شناس نسائی ریڈار ہوتا ہے اسے صاف نظر آتا ہے کہ پیچھے کون کیسی نظر سے دیکھتا چلا آ رہا ہے۔
کسی چھوٹے موٹے نے نہیں نظیر اکبر آبادی نے کہا ہے اور کیا خوب کہا ہے،
آگا بھی کھل رہا ہے، پیچھا بھی کھل رہا ہے ( قہقہہ)
یاں یوں بھی واہ واہ ہے، اور ووں بھی واہ واہ (قہقہے ) ۔
واہ واہ تو ہم بھی کریں گے پر ووں ووں کے استعمال پر (قہقہے ) ”۔
(مشتاق یوسفی)
” نیبھا بہت ہی حسین ہے، ذرا plump side پر ہے۔ boxum beauty اسی کو کہتے ہیں۔ غضب کی ڈانسر ہے۔ ٹھمکا ہو یا ٹھیکا، چکر کی دوران چال کا بہاؤ یا نرت بھاؤ، مجال ہے کہ نرتکی کے سینے کی تھرکن نظر آئے۔ نیبھا کا سینہ نہیں ہلتا، گدر شفتالو جیسے گال ہلتے ہیں۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے جی؟ میں نے پھر جل کر کہا، گال کیوں ہلتے ہیں؟
اس لیے ہلتے ہیں کہ گالوں کو انگیا کرتی نہیں پہنائی جا سکتی، اس نے سمجھایا بھی اور سجھایا بھی ”۔
(شام شعر یاراں۔ مشتاق یوسفی)
پوشیدہ عورت بغض معاشروں میں ایسے سرایت کر چکا ہے کہ مرد کو تو کیا خود عورتوں کو بھی احساس نہیں ہو پاتا کہ مرد ان کے ساتھ کر کیا رہا ہے؟
ہم یہ نہیں کہتے کہ کوئی منظم تحریک چلائیں۔ ہائی یا سپریم کورٹ میں مقدمات کر دیں۔ تاریخ کو پلٹ دیں، وقت کے پہیے کو الٹا گھما دیں۔ نہیں۔ نہیں ہر گز نہیں۔ بس انفرادی طور پر سوچ لیا کریں کہ جو آپ کر رہے ہیں وہی کوئی دوسرا کر رہا ہو گا تو کس کے بارے میں کر رہا ہو گا؟ اور وہ دوسرے بھی کہیں۔ ؟

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *