Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! پندرہویں قسط
اب سمجھ میں آتا ہے کہ اس دور میں انتہائی پڑھے لکھے لڑکوں نے کم پڑھی لکھی اور گھر میں رہنے والی لڑکیوں سے شادی کی خواہش کیوں کی؟ بانو کا فلسفہ بہت سے ذہنوں کو اسیر کر چکا تھا اور یہی مقصد بھی تھا۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ پندرہویں قسط ;
امریکہ جانے کے لیے پیسے اکھٹے کرنے میں ثانیہ نہ جانے کتنی بار مری اور کتنی بار زندہ ہوئی مگر آخر کار اس نے مطلوبہ رقم جمع کر ہی لی۔ وہ رقم اس نے کمال کو ویزا لگوانے کے لیے دی لیکن وہ ویزا لگوائے بغیر ساری رقم کھا گیا۔ وہ پیسے جو اس نے موت کی کوٹھڑی میں رہ کر حاصل کیے تھے ان سے ہاتھ دھو کر وہ پھر سے پھانسی کے پھندے کو اپنے قریب آتا محسوس کرنے لگی۔ لیکن اس بار اس نے پھانسی کے تختے پر کھڑے ہو کر جلاد کا انتظار نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور رسی کا وہ پھندا اپنے گلے سے اتار پھینکا۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ تیسری قسط
کیا محبت کے بغیر کوئی کسی کا خیال نہیں رکھ سکتا؟ اگر میں آپ کا خیال نہ رکھتی تو آپ کو مجھ سے محبت نہ ہوتی؟ اور اگر میں لڑکی نہ ہوتی اور ایک لڑکا ہوتی تو آپ کا خیال رکھنے کے باوجود آپ کو مجھ سے محبت نہ ہوتی۔
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! گیارہویں قسط
لیکن اس موڑ پر سیمی کا کردار بانو کے قلم پر حملہ آور ہو کر عابدہ کو اس روپ میں ڈھل جانے پر مجبور کرتا ہے جس بنیاد پر بانو سیمی کو بری عورت دکھانا چاہتی ہیں۔ نکاح کے بغیر مرد اور عورت کا حرام جنسی تعلق۔ عابدہ ایک اجنبی مرد کی طرف اسی طرح بڑھتی ہے جیسے سیمی۔ لیکن عابدہ اس لعن طعن سے محفوظ رہی جس طرح سیمی کو راندہ درگاہ دکھایا گیا۔ عابدہ کے منہ میں زبان تو بانو کی ہے لیکن وہ، وہ کر رہی ہے جو سیمی نے کیا۔
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر قسط نمبر چار
وہ آرام سے میری چارپائی پر بیٹھ گئی۔ عمر میں وہ مجھ سے چھوٹی ہو گی لیکن جسم کی ساخت سے لگتا تھا کہ وہ شادی شدہ ہے اور اسی رعایت سے اس کی باتوں میں ایک کھلا ڈلا پکا پن تھا۔ وہ دھنسنے والی عورت تھی اس کے ہاتھ پاؤں اتنے گندمی تھے جیسے ابھی ابھی ڈبل روٹی کا میدہ گوندھتے ہوئے آئے ہوں۔ جسم سے وہ مضبوط نظر آتی تھی اس کی گالوں میں گڑھے پڑتے تھے وہ رسم و رواج، محاورے، شگون کی جکڑ بند عادتوں کی سخت تربیت میں پلی لگتی تھی۔ اس کی ساری سوچ میں اپنی سوچ کا شائبہ تک نہیں تھا، ایسے لگتا تھا کہ جیسے وہ کبھی دبدھا، دہرے راستے اور بلاوجہ فکر کرنے سے آشنا ہی نہ رہی ہو۔ میرے لئے ایسی شخصیت تباہ کن حد تک بورنگ اور نئی تھی۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ بارہویں قسط ;
ان ملاقاتوں میں امثال کی کوشش ہوتی کہ بوس وکنار کیا جائے جس پہ ثانیہ کبھی مزاحمت کرتی اور کبھی ہتھیار ڈال دیتی ۔ ڈراپ سین تب ہوا جب ایک دن چھت پہ نبیل نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور غصے میں پاگل ہو کر امثال سے گھتم گتھا ہو گیا۔ جب لڑتے لڑتے دونوں تھک گئے تو امثال نے نبیل کو بتایا کہ اس سب میں ثانیہ کا کوئی دوش نہیں وہی ثانیہ سے محبت کرنے لگا ہے ۔ لیکن اب وہ وعدہ کرتا ہے کہ نبیل کے گھر آنا چھوڑ دے گا۔