Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ سترہویں/ آخری قسط
مرد کے سانچے میں جنم لینے والا انسان ، سانچے کے ڈیزائن کے مطابق اپنے آپ کو کل اور مکمل سمجھتا ہے اور عورت کو ایک چیز جو اس کی ملکیت ہے۔ وہ اپنی مرضی کرنے کے لیے پیدا ہوا ہے جبکہ عورت اس کی اطاعت کے لیے دنیا میں آئی ہے۔ وہ مالک و حاکم ہے جب کہ عورت محکوم اور غلام ہے۔ عورت کی سوچ ، رائے اور فیصلے کی نہ کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی اجازت ۔ وہ دنیا میں سب کچھ اپنی مرضی کرنے کے لیے آیا ہے جبکہ عورت ہر بات میں اس کی طرف دیکھنے پہ مجبور ہے۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ چھٹی قسط
چتر لیکھا مہاراجہ چندر گپت موریہ کے عہد کی عظیم رقاصہ وہ بہت بڑی تخلیقی قوت اور اپنے زمانے کی ایسی عالم تھی کہ بڑے بڑے جوگی اور عالم اس کے سامنے پانی بھرتے تھے۔ اس کے گھر آتے تھے اس سے گفتگو کرتے تھے۔ چتر لیکھا اپنے جسم سے شعر کہتی تھی اور اپنے ہاتھوں کی حرکت سے لوگوں کو وجود میں لے آتی تھی۔ اور تم ثانیہ سمجھ رہی ہیں نا آپ۔ آپ کی شاعری میں لفظ اس طرح حرکت کرتے اور سننے والے کی روح تک پہنچتے ہیں کہ جیسے چتر لیکھا رقص کر رہی ہو۔ ثانیہ کی شاعری میں ایک ڈونڈی ہے، ایک موہ ہے، ایک لبھاؤ ہے جو اس کی شخصیت میں بھی ہے۔ جب یہ ہنستی ہیں نا تو ان کا موہ اور بڑھ جاتا ہے۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ چوتھی قسط
ثانیہ کے ساتھ دفتر میں کام کرنے والی رضیہ کا باپ مر چکا ہے۔ باپ کے مرنے کے بعد جب ماں نے گھر چلانے کے لئے کام شروع کیا تو محلے والوں نے بیوہ عورت اور اس کی تین بیٹیوں کا جینا دو بھر کر دیا۔ یہ سوال کسی کے لئے اہم نہیں تھا کہ چار افراد کے پیٹ میں روٹی کہاں سے آئے گی؟ اہم تھا تو یہ کہ ایک عورت نے گھر کی بقا کے لئے ملازمت شروع کر دی تھی۔ عورت کا گھر سے نکلنا پدرسری نظام کی بنیاد کو کمزور کرتا ہے جو اس کے بنیادی مہرے مرد کو کسی طور پسند نہیں۔
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر قسط نمبر چار
وہ آرام سے میری چارپائی پر بیٹھ گئی۔ عمر میں وہ مجھ سے چھوٹی ہو گی لیکن جسم کی ساخت سے لگتا تھا کہ وہ شادی شدہ ہے اور اسی رعایت سے اس کی باتوں میں ایک کھلا ڈلا پکا پن تھا۔ وہ دھنسنے والی عورت تھی اس کے ہاتھ پاؤں اتنے گندمی تھے جیسے ابھی ابھی ڈبل روٹی کا میدہ گوندھتے ہوئے آئے ہوں۔ جسم سے وہ مضبوط نظر آتی تھی اس کی گالوں میں گڑھے پڑتے تھے وہ رسم و رواج، محاورے، شگون کی جکڑ بند عادتوں کی سخت تربیت میں پلی لگتی تھی۔ اس کی ساری سوچ میں اپنی سوچ کا شائبہ تک نہیں تھا، ایسے لگتا تھا کہ جیسے وہ کبھی دبدھا، دہرے راستے اور بلاوجہ فکر کرنے سے آشنا ہی نہ رہی ہو۔ میرے لئے ایسی شخصیت تباہ کن حد تک بورنگ اور نئی تھی۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ چودہویں قسط ;
ارشد نے بعد میں ثانیہ کو طلاق دے کر تیسری شادی کرلی۔ کراچی میں ثانیہ نے سلائی کڑھائی کا کام سیکھنے کے بعد ایک کارخانے میں نوکری کر لی۔ کارخانے میں کام کرتے ہوئے اُسےعلم ہوا کہ کارخانے میں کام کرنے والی ورکروں کو مالک کی کچھ اور خواہشیں بھی پورا کرنا پڑتی ہیں۔ یونس نامی مالک کی نظر ثانیہ پر پڑی اور بہت جلد دونوں کے جسمانی تعلقات استوار ہو گئے اور اس کے نتیجے میں ثانیہ حاملہ ہو گئی ۔ یونس کی مدد سے ہی ثانیہ نے اس حمل کو ضائع کروا دیا۔ اس کے بعد ثانیہ نے اس سے تعلقات ختم کر دیے کہ اسے ایک گھر کی خواہش ہونے لگی تھی۔
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! بارہویں قسط
اس مرحلے پر بغیر نکاح کے جنسی تعلق اور گدھ کی مردار سے رغبت کے تھیسس کو سامنے رکھا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کیا مصنفہ ناول کے بنیادی موضوع کو فی الحال ایک طرف رکھتے ہوئے قیوم کی گدھ سے مماثلت کے خیال میں مضبوطی پیدا کرنا چاہتی ہیں؟ عابدہ کی اپنے شوہر سے اولاد نہ ہونا اور اس کمی کو قیوم کے نطفے سے مکمل کرنے کی کوشش کا بیان پڑھتے ہوئے قاری اس منطق کو کیسے بھول سکتا ہے جو سیمی اور قیوم کے تعلق پر منطبق کی گئی تھی۔