Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! بارہویں قسط
اس مرحلے پر بغیر نکاح کے جنسی تعلق اور گدھ کی مردار سے رغبت کے تھیسس کو سامنے رکھا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کیا مصنفہ ناول کے بنیادی موضوع کو فی الحال ایک طرف رکھتے ہوئے قیوم کی گدھ سے مماثلت کے خیال میں مضبوطی پیدا کرنا چاہتی ہیں؟ عابدہ کی اپنے شوہر سے اولاد نہ ہونا اور اس کمی کو قیوم کے نطفے سے مکمل کرنے کی کوشش کا بیان پڑھتے ہوئے قاری اس منطق کو کیسے بھول سکتا ہے جو سیمی اور قیوم کے تعلق پر منطبق کی گئی تھی۔
!راجہ گدھ کا تانیثی تناظرسترہویں قسط
وہ دس سال کا ہے ، اسے عجیب عجیب خواب آتے ہیں۔ پہلے بہت صحت مند یعنی بھرے جسم کا تھا پھر ان خوابوں کی وجہ سے اس کا وزن گھٹنے لگا ۔ وہ آدھا آدھا گھنٹہ ایک ہی پوزیشن میں بیٹھا رہنے لگا۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ کیٹاٹونکcatatonic, حالت میں ہے جبکہ افراہیم کہتا ہے کہ اس نے چاند کو دو ٹکڑے ہوتے دیکھا ہے۔ وہ خود کو دنیا کا نجات دہندہ سمجھتا ہے۔ کبھی وہ فر فر عربی بولتا ہے، کبھی عبرانی میں باتیں کرتا ہے، کبھی بتاتا ہے کہ اسے فرشتہ پھل کھلانے آتا ہے۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور -کا استعارہ ! – دسویں قسط
میں نے ایک بار خبر پڑھی تھی کہ ایک آدمی کو تین بار سزائے موت دی گئی ۔ بظاہر یہ مضحکہ خیز بات ہے لوگ پڑھ کر ہنس رہے تھے لیکن مجھے ہنسی نہیں آئی کیونکہ مجھے علم تھا کہ تین بار کیا، کئی بار کئی ہزار بار سزائے موت دینا ممکن ہے اور دی جاتی ہے۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور -کا استعارہ ! – گیارہویں قسط
ثانیہ اور امثال کی ملاقاتیں بڑھتی چلی جاتی ہیں اور ایسا کرنے میں امثال کی خواہش زیادہ ہے ۔ امثال ثانیہ کواپنے لئے ایک چیلنج سمجھتا ہے۔ یہاں آپ دونوں کرداروں کا تقابل کیجئیے۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ پہلی قسط
ایک ایسا ناول جس کا بنیادی کردار ایک ایسی عورت سے متاثر ہو کر بنایا گیا جو اپنے متعدد جنسی معاشقوں، شادیوں، بے راہ روی اور پراسرار موت کی وجہ سے آج بھی یاد کی جاتی ہے۔ ایک ذلت آمیز زندگی گزار کر رخصت ہو جانے والی ہی تو ذلتوں کی اسیر تھی۔ پھر عنوان ذلتوں کے اسیر کیوں؟ کیا یہ کتابت کی غلطی ہے، طباعت کی یا انور سن رائے سے چوک ہو گئی؟ کیونکہ ناول کے نام کا صیغہ واحد نہیں۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ ساتویں قسط
میں نے دیکھا ہے، سب رشتے بکواس ہیں۔ مرد صرف مرد ہوتا ہے اور عورت صرف عورت۔ جب تک داؤ نہیں چلتا، رشتے بنے رہتے ہیں اور جیسے ہی موقع ملتا ہے، مرد مرد بن جاتا ہے اور عورت عورت بن جاتی ہے۔ اور ہر مرد عورت سے کھیلتا ہے جب تک اس کا دل چاہتا ہے وہ عورت سے کھیلتا ہے اور جب اس کا دل بھر جاتا ہے وہ کسی اور کی طرف چل دیتا ہے۔ اس لئے اب میں عورت نہیں رہنا چاہتی، میں مرد بننا چاہتی ہوں، میں مردوں کو اپنے اشاروں پر نچانا چاہتی ہوں۔ بڑا ادھار نکلتا ہے میرا اور اپنا سب ادھار وصول کرنا چاہتی ہوں۔