Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
دادا – امی کو مت مارو ۔ میں نے بدتمیزی کی – سو مار کھائی
کیا ہوتا اگر اس کی جگہ ہم ہوتے؟ کیا ہوتا اگر اس کی جگہ ہماری بیٹی ہوتی؟ کیا ہوتا اگر اس کی جگہ ہماری بہن ہوتی؟ کیا ہوتا اگر یہ ہماری ماں ہوتی اور ہم ان ننھے منوں میں شامل ہوتے جو بے قرار، بے چین اپنی ماں کو ایک شقی القلب شخص سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں جو ان بچوں کا دادا بھی ہے۔ دادا۔ کیسا پیارا لفظ ہے یہ۔ ابا کے ابا! ہم اپنے دادا دادی کو نہ دیکھ سکے، ابھی تک اس حسرت کو دل میں چھپائے بیٹھے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اگر ابا ایسے تھے تو ابا کے ابا کیسے ہوں گے؟
پانچ سو یا پانچ سو ایک؟
ویسے تو جو بچہ شہ بالا بنا بیٹھا ہوتا اسے بھی سب دو چار روپے تھما رہے ہوتے اور شہ بالا صاحب کی اکڑ پورے عروج پہ ہوتی کہ ساتھ کے بچوں سے آنکھیں ہی نہ ملاتے۔ ایسے موقعوں پہ ہمیں رسم و رواج پہ غصہ بھی آتا اور شکوہ بھی۔ یہ کیا بات ہوئی بھلا؟ لڑکا ہی کیوں بنے شہ بالا؟ لڑکا ہی کیوں بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے؟ مطلب دولہا دلہن کا ساتھ اور ڈھیر سے روپے۔ آخر شہ بالی کیوں نہیں؟ جائیں ہم نہیں بولتے۔
!ڈاکٹر کی ڈائری
خون کی دو بوتلیں، بچے دانی میں انجکشن، مقعد میں گولیاں اور سوئی دھاگے کا کمال ۔ ۔ ۔ کاک ٹیل تو چڑھا دی ہم نے مریض کو۔ معاملہ کچھ ہی دیر میں سدھر گیا تو سب کی سانس میں سانس آئی۔ اُڑتی ہوائیاں کہیں ادھر اُدھر ہو گئیں۔ کچھ تعریف شعریف بھی ہوئی وہ کیا اپنے منہ سے بتائیں ۔ ۔ ۔ آپ ہمارا نام میاں مٹھو ہی نہ رکھ دیں کہیں۔ نا بابا نا گھوٹکی والے میاں مٹھو نہیں جو دن رات ثواب کماتے ہیں چھوٹی بچیوں کو سیدھے راستے پر لا کر۔
!داڑھی کا ایک بال، بڑھیا اور سالگرہ
بچپن میں جب کوئی افسانہ یا کہانی ہم پڑھتے جس میں پچاس پچپن کی عورت کا ذکر ہوتا تو نقشہ کچھ یوں کھینچا جاتا، شکل سے گھاگ نظر آوے، حرکات میں شاطر، نقاہت اور عمر نے ہلنے جلنے کے قابل نہیں چھوڑا، تخت پہ بیٹھی حکم چلاتی اور داؤ پیچ کھیل کر ہر کسی کا دم ناک میں کرتی ہوئی بڑھیا۔
!دلہن ایک رات کی
پندرہ سولہ برس کی دبلی پتلی لڑکی، مانگ میں افشاں چمکتی ہوئی، مٹا مٹا میک اپ، ہاتھ اور بازو مہندی کے خوبصورت نقش و نگار سے سجے ہوئے، رنگت سفید جیسے جسم میں ایک قطرہ خون نہ ہو، ایک عورت دائیں طرف، دوسری بائیں طرف سے تھامے ہوئے، سفید و سیاہ چار خانے والا کھیس اوڑھے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے لیبر روم میں داخل ہوئی۔
ہم نے کیوی کپ لگانا اس کے موجد سے سیکھا ہے
گائناکالوجی کی دنیا کی سب سے بڑی کانفرنس تھی اور بھانت بھانت کے گائناکالوجسٹ موجود تھے۔ پاکستان سے نامی گرامی پروفیسرز کے ساتھ بہت سے پرانے ساتھی بھی وہاں موجود تھے۔ سارا دن ہنسی کھیل کے ساتھ ساتھ نئی ریسرچ، انوکھی دریافت اور نئے آئیڈیاز پر بات ہوتی۔ بہت کچھ تھا سیکھنے اور سکھانے کو۔ ہم بھی وہاں موجود تھے، ہم بھی سب دیکھا کیے۔