نئی منزلوں کی پرواز پر پرندے اور خالی ہوتا گھونسلا
خدا حافظ
ایک چھوٹا سا لفظ لیکن کرب سے بھرا ہوا، جدائی کا درد، بچھڑنے کی نارسائی، فاصلوں کے سمندر اور وقت کےصحرا کا ہجر
کہنے کو لمحہ لگا پر ہونٹوں تک پہنچنے میں قیامت
دو لوگ گلے ملے، دو ہاتھ ہلے اور کچھ آنسو آنکھوں کو نم کر گئے۔ دل میں جذبات کا تلاطم دھڑکن تیز کرتا تھا اور ماں بلائیں لیتی تھی اس چہرے کی جو جدا ہونے کو تھا!
بہت سال پہلے کی یاد آ گئی
لاہور سے اطلاع آ چکی تھی کہ ہم میڈیکل کالج کے لئے منتخب ہو چکے ہیں۔اب انتظار تھا کہ کلاس شروع ہونے کی اطلاع ملے تو ہم رخت سفر باندھیں۔ نئی منزل پہ پہنچنے کی بے تابی اس قدر تھی کہ گھر سے جدائی کا خیال ہی نہ آتا تھااور نہ ہی اماں کے اداس چہرہ پہ دھیان جاتا۔
ہماری اپنی اماں سے بہت بے تکلفی تھی۔ گھر میں ہلا گلا کرنے کے بھی ہم ہی شوقین تھے اور اماں کے بازاروں میں چکر لگانے میں ہم ہی ان کے ساتھی۔ آپا اور چھوٹی بہن سے اماں اس سلسلے میں مایوس ہی رہتیں۔ اور اب ہم انہیں چھوڑ کے جانے والے تھے پانچ سے چھ سال کے طویل عرصے کے لئے۔ اماں ایک ٹھنڈی سانس بھرتیں اور کہتیں ‘اب گئی تو ہمیشہ کے لئے گئی’ کہ پڑھائی کے بعد تو لڑکیاں ویسے ہی رخصت ہو جایا کرتی ہیں۔ آپا کی صورت حال ان کے سامنے تھی جو پڑھائی کے فوراَ بعد سسرال سدھار گئی تھیں۔ (اماں صحیح سمجھی تھیں میڈیکل کالج سے فراغت کے ٹھیک تین ماہ بعد ہماری شادی ہو گئی تھی۔)
اماں بھاری دل اور نم آنکھوں سے ہماری ضرورت کی ہر چیز اکٹھی کر رہی تھیں۔ نیا بستر، مگ، پلیٹ، چمچ، صابن، شیمپو، تولیہ۔ بہت سے کپڑے سل رہے تھے کہ وہاں اب ہم یونیفارم کےجنجھٹ سے آزاد تھے۔
اواخر مئی کے دن کی یاد آج بھی در دل سے لپٹی ہے جب ہم نے رخصت ہونا تھا۔ ابا چپ چپ تھے اور اماں کی آنکھ نم ہوتی تھی۔ چھوٹے بہن بھائی بار بار لپٹتے تھے، اور ہمیں نئى منزلوں کا فسوں بے تاب کرتا تھا۔
ہم جانتے ہی نہیں تھے زندگی کی کہانی کا یہ باب ختم ہونے کو ہے۔ ہم احساس کی ان منزلوں سے کوسوں دور تھے کہ اس گھر کی چھت آنے والے برسوں میں ہماری عارضی قیام گاہ ہو گی اور ان مہربان چہروں کے درمیان ہمیشہ وقت کے فاصلے حائل ہوں گے۔ مگر وہ سمجھتے تھے جن کے گھونسلے سے ایک پرندہ پرواز کرنے کو تھا اور وہ اداس ہونے کے ساتھ ساتھ اس پہ نازاں بھی تھے۔
وقت کے پلوں سے بہت پانی بہہ چکا، زندگی کی ایک اور کینچلی اتر چکی!
گردش دوراں ہمیں ہماری ماں کی مسند پہ بٹھا چکی، جہاں محنت اور محبت سے بنا ہوا گھونسلا بھی ہے اور خون جگر دے کے پروان چڑھائے ہوئے پرندے بھی۔ گزرے ہوۓ لمحے اور ساعتیں ان پرندوں کو طاقت پرواز عطا کر چکیں۔ پہلا پرندہ کچھ سال ہوۓ، نئے آسمانوں میں روشن افق تلاش کر چکا، اجنبی دنیائیں وطن بن چکیں اور ہجرکے فاصلے حائل ہو چکے۔
اور اب وقت ہے ایک اور ضبط کے مرحلے سے گزرنے کا ! جیسے ہماری ماں نے صبر و شوق سے اپنا گھونسلا خالی کیا تھا اور ہر جانے والے کے دامن میں محبت کا تحفہ ڈالا تھا، ہم بھی اسی پل صراط پہ کھڑے ہیں۔
کچھ دن سے ہمارے گھر میں ایک نامانوس سی فضا ہے، کچھ بے چینی، کچھ اداسی اور کچھ خوف۔ ایک مکین نئی اور اجنبی مسافتوں کی تیاری میں ہے۔ بچپن کی ساتھی گڑیاں اور بھالو پیک ہو کے الماری کے اوپر والے خانے میں رکھے جا رہے ہیں۔ تصویروں کی چھانٹی ہو رہی ہے۔ ہوسٹل کے کمرے کی دیوار پہ ماما پاپا کی کونسی تصویر لگائی جائے گی؟ وہ والی جب پہلی سالگرہ پہ وہ ہماری گود میں ہمکتی تھی یا وہ جب ہماری انگلی پکڑ کے چلنا سیکھتی تھی۔
