Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! سولہویں قسط
بھابھی لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی عام سی عورت جو مرد اور عورت کے تعلق کو روایتی عینک سے دیکھتی ہے ۔ کم از کم بانو نے اسے یہی روپ عطا کیا ہے لیکن بیچ بیچ میں بھابھی کا کردار بانو کے قلم کی نہ مانتے ہوئے خودسری پہ اتر آتا ہے۔ بانو ناول کی سچوئشن بنانے میں اس قدر محو ہیں کہ بھابھی کا underplay بھانپ ہی نہیں پاتیں۔آئیے دیکھتے ہیں کیسے ؟
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! تیرہویں قسط
سب سے پہلی بار جب میں نے اسے دیکھا تو وہ قاضی کے کمرے میں بیٹھی سگریٹ پی رہی تھی۔ اس نے فل میک اپ کر رکھا تھا۔ برقعے کا نچلا سیاہ کوٹ جسم پر تھا اور نقاب کرسی پر لٹک رہا تھا۔ اس نے کوئی تازہ لطیفہ سنایا تھا جس کی وجہ سے کمرے میں بیٹھے ہوئے قاضی کے تین حواری ہنس رہے تھے۔
ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ پندرہویں قسط ;
امریکہ جانے کے لیے پیسے اکھٹے کرنے میں ثانیہ نہ جانے کتنی بار مری اور کتنی بار زندہ ہوئی مگر آخر کار اس نے مطلوبہ رقم جمع کر ہی لی۔ وہ رقم اس نے کمال کو ویزا لگوانے کے لیے دی لیکن وہ ویزا لگوائے بغیر ساری رقم کھا گیا۔ وہ پیسے جو اس نے موت کی کوٹھڑی میں رہ کر حاصل کیے تھے ان سے ہاتھ دھو کر وہ پھر سے پھانسی کے پھندے کو اپنے قریب آتا محسوس کرنے لگی۔ لیکن اس بار اس نے پھانسی کے تختے پر کھڑے ہو کر جلاد کا انتظار نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور رسی کا وہ پھندا اپنے گلے سے اتار پھینکا۔
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! ساتویں قسط
آفتاب کے کردار کی کمزوریاں ابھر کر سامنے آتی ہیں اور وہ بھی سیمی کی زبانی جس نے اسے ببانگ دہل چاہا۔ لیکن جسے چاہا وہ انتہائی کمزور فطرت فلرٹ مرد نکلا۔ جس نے منگیتر ہونے اور اپنی تنگ نظر گھریلو روایات کا علم ہونے کے باوجود ایک لڑکی سے محبت کا ڈھونگ رچا کر اسے یقین دلایا کہ وہ زندگی اکٹھی گزار سکتے ہیں اور اس کے بعد اپنی بچپن کی منگیتر سے شادی کر لی۔
راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! پندرہویں قسط
اب سمجھ میں آتا ہے کہ اس دور میں انتہائی پڑھے لکھے لڑکوں نے کم پڑھی لکھی اور گھر میں رہنے والی لڑکیوں سے شادی کی خواہش کیوں کی؟ بانو کا فلسفہ بہت سے ذہنوں کو اسیر کر چکا تھا اور یہی مقصد بھی تھا۔
ذلتوں کے اسیر؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ! آٹھویں قسط
میں نے آئینے میں کھڑی ہوئی عورت کے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا، تیرا پیٹ اتنا پھولا ہوا کیوں ہے؟ وہ ہنس دی،…