Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
کپتان کا بت ٹوٹ گیا
ہمیں وہ دن بھی یاد ہیں جب ہم کالج کی کلاسوں سے بھاگ کے کپتان کا میچ دیکھنے قذافی سٹیڈیم جاتے تھے۔ ہر لڑکی یوں بنتی سنورتی، جیسے کپتان کھیلنے نہیں، بر چننے آ رہا ہے۔ وہ جب باؤلنگ کروانے کے لیے لمبا سٹارٹ لیتا، لوگوں کے دل کی دھڑکن رک رک جاتی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا لوگ کرکٹ نہیں، کپتان دیکھنے جاتے تھے۔
ویجائنا یا پتھر کی دیوار؟ کیا کریں؟
نوجوان جوڑا کلینک میں داخل ہوتا ہے۔ نئے شادی شدہ نظر آتے ہیں لیکن دونوں کا چہرہ بجھا بجھا سا۔ ہم سامنے بٹھا کر ادھر ادھر کی بات کرنے کے بعد آنے کا مقصد پوچھتے ہیں۔ دونوں کچھ دیر خاموش رہتے ہیں۔ آخر شوہر ہمت کرتا ہے۔ وہ ڈاکٹر صاحب، بہت پرابلم ہے۔ یہ۔ ۔ ۔ یہ۔ ۔ ۔ جی، جی کہیے؟ جی، اصل میں ہماری شادی کو ڈیڑھ مہینہ ہوا ہے لیکن ابھی تک ہم کچھ۔ میرا مطلب ہے، ازدواجی تعلق۔
تم ہزارہ لوگ ایک ہی دفعہ کیوں نہیں مر جاتے
ایک بات بتاؤں تمہیں، مذہب کے نام پہ کاٹنا اور کٹنا، کچھ نیا نہیں تاریخ میں۔ اختلاف رائے کی سزا صرف موت ہوتی ہے۔ یا تو ہمارے رستے چلو یا پھر مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ کربلا اسی کو تو کہتے ہیں اور کربلا دہراتے دہراتے تمہیں یہ سبق تو یاد ہونا چاہئے۔
ہر حمل ایک پل صراط ہے جس پر چلتی عورت ہر قدم پر ڈگمگاتی ہے
ہانپتی کانپتی، قدرے فربہ، معصوم چہرے پر ہوائیاں اور ساتھ میں مرنجاں مرنج صاحب میں بہت پریشان ہوں، مرنا نہیں چاہتی میرے تین بچے…
ماہواری: زندگی سے ڈرتے ہو؟
واللہ ہمیں خبر نہیں کہ ماہواری کی آگہی پھیلاتے ہوئے درد مند شاعروں کے زندگی سے جڑے الفاظ کیسے جھٹ سے کود کے ہمارے سامنے یوں جھلک دیتے ہیں کہ ہم مجبور ہو جاتے ہیں کہ ان کی طرف توجہ کی جائے۔ خوش فہمی کہیے یا غلط فہمی کہ ہر مصرعہ پڑھتے ہوئے شائبہ نہیں، یقین ہوتا چلا جاتا ہے کہ زندگی کے رموز کھولتے شاعر کے ذہن میں زندگی کی کنہ کی کہانی ہی تو تھی۔ ن م راشد کی یہ بے مثل نظم ان پسندیدہ نظموں میں شامل ہے جو ہم اکثر تحت الفظ میں پڑھتے ہیں۔
کیوی – جس نے زچگی میں اوزار لگانے کو آسان بنایا
اس ویکیوم کپ کی ایجاد نے زچگی میں اوزار لگانے کو بہت آسان اور بہتر کر دیا۔ چونکہ پروفیسر ایلڈو ویکا کا تعلق نیوزی لینڈ سے تھا سو انہوں نے اس پلاسٹک سے بنے ہوئے انسٹرومنٹ کا نام کیوی رکھا۔ یہ وہی کیوی ہے جو کبھی ہمارے ہاں بوٹ پالش کی ڈبیا پر پایا جاتا تھا۔ شاید آج بھی پایا جاتا ہو۔