Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
ڈیوٹی ڈاکٹرز سے کہہ دیجیے مریضہ کی حالت دیکھ کر زیادہ شور نہ مچائیں
اسپتال میں جب کچھ مہینے گزر گئے تو باتوں باتوں میں ساتھی ڈاکٹرز سے علم ہوا کہ نواحی علاقوں کے پرائیویٹ اسپتالوں سے جو مریض ادھ موئی کیفیت میں ریفر ہو کر ہمارے اسپتال پہنچتے ہیں ان میں ان ڈاکٹر کا اسپتال سر فہرست تھا جن کی نارمل ڈلیوری کی شہرت اور مہارت کے چرچے ہم تک پہلے سے پہنچ چکے تھے۔ ہائیں۔ ہمارا دل بند ہوتے ہوتے بچا۔
عید قربان – سنت خلیل اللہ یا جنت میٹرو سروس
عید الضحی کے سلسلے میں دوستوں کی محفل تھی۔ جہاں ذکر تھا وطن عزیز میں عوام کے جوش وخروش کا اور قربانی کے لئے خریدے جانے والے جانوروں کا جن کی قیمت لاکھوں میں ادا کی جا رہی تھی۔ ہم یہ سب سن کر بہت حیران تھے کہ قربانی کا تصور تو بہت علامتی ہے اور بنیادی طور پہ خلیل اللہ کی اپنی اولاد سے محبت اور خالق کی اطاعت کا مظہر ہے۔
سرکاری اسپتالوں کا وہ رخ جو عوام سے اوجھل رہتا ہے
وقت کانچ کے بنے ان انسانوں کو آہستہ آہستہ پتھر میں بدل دیتا ہے، کہ ان کے اردگرد موجود تمام نظام ادھورا اور ٹوٹا پھوٹا ہے، آخر وہ کب تک لڑیں؟ کس کس سے لڑیں؟ حد تو یہ ہے کہ موت کے دروازے پر کھڑے مریض کے پیارے بھی اجنبی بن کر ذمہ داری سے دامن چھڑا جاتے ہیں۔
کمسن تتلیوں کے رنگ، لہو اور یوم حساب
ٹین ایج یعنی بیس سال سے پہلے کی عمر انتہائی خطر ناک عمر گنی جاتی ہے۔ اسے بچپن اور نوجوانی کے سنگم پہ کھڑے بچوں کے لئے کیسے سہل بنایا جا سکتا ہے، دنیا بھر کے سائیکالوجیسٹ اس بارے میں بات کرتے ہیں۔ اس عمر کے عذاب سے گزرنے والا بچہ / والی بچی ماں باپ کی ذمہ داری بھی ہے اور ماں باپ کی غیر مشروط سپورٹ کا امیدوار بھی، چاہے لڑکا ہو یا لڑکی۔
کیا نکلا ویجائنل ڈلیوری کے اٹھارہ برس بعد
بے ہوشی سے پہلے ہم ضرور کہتے ہیں لو جی ہم جا رہے ہیں۔ پھر ملیں گے۔ رب راکھا۔ ( ہو سکتا ہے پچھلے جنم میں ہم ٹرک ڈرائیور رہے ہوں ) ۔ خیر اس دن بھی ان ڈائیلاگز کے بعد رات اندھیری ہو گئی اور بتیاں بجھ گئیں۔
ہوش آیا تو ہم ہسپتال کے کمرے میں بستر پر دراز تھے۔ آپریشن کی تکلیف تھی لیکن وہ تو ہونی ہی تھی۔ دوسرے دن سر راؤنڈ پر آئے تو کافی سیریس نظر آئے۔ اس دن معمول سے کچھ زیادہ بات کی۔
سفر کی مشکلات اور سپین کا ویزا
چچا سام نہیں، چچا لفتھانسا! چچا لفتھانسا کا بس نہیں چلتا تھا کہ بڑھیا کو کچا چبا جائیں۔ بھئی حد ہوتی ہے۔ دن مہینے گزرتے چلے جا رہے ہیں اور بڑی بی کے مزاج ہی نہیں ملتے کہ معاملہ ختم کریں۔ چچا کی بڑبڑاہٹ ہم تک پہنچ رہی تھی ان خطوں کے ذریعے جو ہر دوسرے دن کمپیوٹر کے لیٹر بکس میں پائے جاتے تھے۔ جب کسی بھی طرح ہم نے کان نہ دھرا تو وارننگ کا خط آ گیا کہ بس بی بی بس۔ اب ہم کھاتہ بند کیے دے رہے ہیں، تم آرام سے گھر بیٹھو!