آپریشن کروانا ہے مگر کس سے؟
|

آپریشن کروانا ہے مگر کس سے؟

تکلیف بڑھتی چلی جا رہی تھی اور گائناکالوجسٹ ہونے کے ناتے ہم جانتے تھے کہ کچھ بہت ہی عجیب سی صورت حال تھی۔
Rectocele ( مقعد کا ویجائنا میں آ جانا ) تو تھی ہی مگر اس کے ساتھ کچھ اور بھی جو ہم تشخیص کرنے سے عاری تھے۔ صبح اٹھتے تو مقعد کے ایک طرف ایک تھیلی باہر کو ابھری ہوتی جس میں پاخانہ بھرا ہوتا۔ تھیلی سے پاخانہ خارج کرنے کے لیے ہمیں انگلی سے دبانا پڑتا۔ کیا ہے بھئی یہ؟ ہم نے تو آج تک ایسا کوئی مریض نہیں دیکھا، نہ پاکستان میں نہ پاکستان سے باہر، ہم زچ ہو کر خود سے پوچھتے۔ ساتھ کام کرنے والے ایرانی، ہندوستانی، عراقی، شامی ڈاکٹروں کو بھی دکھا لیا مگر کسی سے تشخیص نہ ہو سکی۔ ہماری طرح ہماری بیماری بھی عجیب و غریب تھی۔
جب پانی سر سے اوپر ہو گیا تب سوچا کہ اب کیا کریں؟ ذہن میں ایک خیال بار بار آتا، انہیں دکھاؤ۔ انہیں؟
ہاں انہیں۔ جو اپنی مثال آپ ہیں، آپریشن کرتے ہیں یا تصویر بناتے ہیں، انسانی جسم کی سب پرتیں ان کے ہاتھ میں آ کر بولنے لگتی ہیں۔
لیکن ان کا مزاج؟
ان کا موڈ؟
ناک کی پھننگ پہ رکھا غصہ؟
وہ کون سہے گا؟
برداشت کر لینا بی بی، ضرورت مند تم ہو۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ ہیں کون؟ اس کے لیے ہمیں پھر ماضی میں جانا پڑے گا۔
دو ہزار ایک کا راولپنڈی۔ ہماری اور شوہر کی پوسٹنگ گوجرانوالہ ہو چکی تھی۔ نشتر ہسپتال سے سپیشلائزیشن کی ٹریننگ ختم کرنے کے بعد اب ہمیں امتحان دینا تھا۔ احمد نگر چٹھہ کے ہیلتھ سینٹر پہ کام کرنے کے ساتھ ساتھ ہم پڑھائی میں بھی مصروف تھے۔ دوسرا بچہ بھی انہی دنوں پیدا کیا تھا۔ سپیشلائزیشن کے امتحان کے دو درجے ہوتے ہیں پہلا تحریری دوسرا زبانی۔ اگر تحریری پاس کر لیا جائے تو زبانی کا موقع ملتا ہے جس میں اصل مریض بلائے جاتے ہیں۔ مریض کا معائنہ ممتحن کی موجودگی میں کیا جاتا ہے اور پھر مریض کے متعلق سوال و جواب کیے جاتے ہیں۔
تحریری امتحان جب پاس ہو گیا، تب سوچا کہ زبانی امتحان کی پریکٹس کے لیے کہاں جایا جائے؟ اصولاً نشتر ہسپتال جانا چاہیے تھا کہ پروفیسر حضرات سے لے کر وارڈ کا چپراسی تک ہمیں جانتا تھا۔ لیکن ملتان سے کوچ کے بعد اب وہ اجنبی شہر تھا، ان معنوں میں کہ کہاں رہتے؟ کچھ مہینوں کی بچی کا ساتھ، اس کی دیکھ بھال بھی ایک مسئلہ ۔
سوچا پنڈی چلتے ہیں، اماں ابا کا گھر تو ہر وقت آغوش میں لینے کو تیار رہتا ہے نا۔ نوکری سے چھٹی کی، بچوں کو ساتھ لیا اور جا پہنچے میکے۔ ہماری امی کو نواسیوں سے بہت محبت تھی سو دیکھتے ہی کھل گئیں اور یہ جان کر تو نہال ہو گئیں کہ ہم تقریباً مہینے کے لیے آئے ہیں۔ بڑی بچی کو مہمان سٹوڈنٹ کے طور پہ بیکن ہاؤس سکول بھیجا، چھوٹی کے لیے ہیلپر کا بندوبست کیا اور خود جا پہنچے ہولی فیملی ہسپتال پنڈی۔
ہم نے ایم بی بی ایس لاہور سے کیا تھا سو پنڈی کے باسی ہونے کے باوجود یہاں کے ہسپتالوں سے کوئی واقفیت نہیں تھی۔ سوچا چل کر دیکھتے ہیں، کون ہے وہاں؟ ہولی فیملی میں پتہ چلا کہ ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ پروفیسر اسلم ہیں جو کہ کافی سڑیل سے ہیں۔ دس باتیں کرو تب بھی ہوں ہاں سے زیادہ جواب نہیں دیتے۔
کوئی اڑیل ہو یا سڑیل، بات کرنا ہمارے لیے کبھی بھی مشکل نہیں رہا سو جا پہنچے ان کی سیکرٹری عفت کے پاس۔ عفت بہت ہنس مکھ اور خوش اخلاق خاتون۔ ہم نے سوچا واہ کیا کومبینیشن ہے سڑیل باس اور ہنس مکھ سیکرٹری۔ ویسے کسی جاسوسی ناول کا عنوان بھی ایسا ہو سکتا تھا۔
ہم نے عفت سے اپنا تعارف کروایا، آنے کی غرض بتائی اور کہا کہ ہم ملنا چاہتے ہیں بڑے صاحب سے۔
موڈ کچھ خراب ہے صبح سے۔ ماتھے پر تیوریاں ہیں اور کافی لوگوں کو ڈانٹ پڑ چکی ہے، وہ بولیں۔
اوکھلی میں ہم سر دے چکے تھے، سو اب ڈر کے کیا کرتے؟ کہاں جاتے؟
کہا عفت سے کہ بھئی ہم پھر بھی ملنا چاہیں گے، دیکھیں تو سہی۔ عفت اندر گئیں اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آ کر کہا کہ ہم اندر جا سکتے ہیں۔ ہم اندر داخل ہوئے۔ یہ کہنا تو غلط ہو گا کہ ٹانگیں لرز رہی تھیں لیکن ہم متجسس بہت تھے۔
بڑی سی میز کرسی کے پیچھے ایک منحنی، کوتاہ قامت اور معنک صاحب بیٹھے تھے۔ ہم نے سلام کیا، انہوں نے اشارے سے جواب دیا۔ ہم نے کچھ ثانیے انتظار کیا کہ وہ ہم سے پوچھیں گے کہ ہم کون؟ ان کی طرف سے ایک لفظ آیا۔ جی؟ ہم نے اس جی کو غنیمت جانتے ہوئے ایک ہی سانس میں پوری کہانی سنا ڈالی کہ ملتان سے ٹریننگ کے بعد تحریری امتحان پاس کر چکے۔ اب زبانی کی تیاری کرنی ہے اور پنڈی ہمارا میکہ ہے۔ جب فر فر رٹا ہوا سبق سنا کر فارغ ہوئے تو انتہائی مختصر جواب آیا، او کے، درخواست عفت کو دے دیجیے۔ ہم کچھ دیر انہیں دیکھتے رہے کہ کچھ مزید بتائیں گے، ہم کب آئیں؟ کس گروپ کو جوائن کریں؟ لیکن وہ ایک شان بے نیازی سے کرسی کا رخ موڑ چکے تھے جو کہ اشارہ تھا کہ تشریف لے جائیے دوسرے لفظوں میں دماغ مت چاٹیے اور دفع ہو جائیے۔
ہم باہر پھر سے عفت کے پاس جا بیٹھے اور انہیں سب کہہ سنایا۔ وہ بہت ہنسیں اور کہنے لگیں شکر کرو کہ جھاڑ نہیں پڑ گئی۔
جھاڑ؟
مگر کس بات پر؟ ہم نے حیران ہو کر پوچھا۔ ان سے جھاڑ پڑنے کے لیے کسی بات کا ہونا ضروری نہیں۔ عفت نے جواب دیا۔ عفت ہی نے ہمیں کچھ اور ڈاکٹروں سے ملوایا، جنہوں نے ہمیں گائیڈ کیا کہ کیا کرنا ہے؟
اگلے دن سے ہم ہولی فیملی ہسپتال جانے لگے۔ زبانی امتحان تین ہفتوں کے بعد ہونا تھا جو بعد میں رمضان کی وجہ سے موخر ہو کر ڈیڑھ مہینے پر جا پہنچا۔ ہولی فیملی سے پانچ ڈاکٹر تحریری امتحان پاس کر چکے تھے، چھٹے ہم۔ اس گروپ میں پروفیسر اسلم کی بیگم بھی تھیں جن کے سامنے ہم سب بلاتکلف پروفیسر صاحب کی برائی کرتے اور وہ ہنس دیتیں۔ پروفیسر صاحب کی ڈانٹ اور موڈ سے وہ بھی محفوظ نہیں تھیں۔
چھ لوگ سارا دن وارڈز میں گھومتے۔ مریض دیکھتے۔ پروفیسر اسلم کو مریض کی ہسٹری سناتے۔ وہ اپنے بال نوچتے ہوئے ڈانٹ ڈپٹ کرتے اور ہم سب کینٹین پہ جا کر چائے سموسے کھاتے ہوئے خوب ہنستے۔ یہ چھ عورتیں نہیں، چھ کہانیاں تھیں، گھر بار والی۔ بچوں کی مائیں، بیویاں، بہویں اور بیٹیاں۔ سب زندگی کی دوڑ میں اپنا حصہ لینے کے لیے جدوجہد کر رہی تھیں۔
وہ ڈیڑھ مہینہ ہماری زندگی کا ایک اہم سنگ میل بن گیا۔ پروفیسر اسلم سے شناسائی زندگی بھر کے رشتے میں بدل گیا، استاد شاگرد کا رشتہ۔
پروفیسر اسلم ذہانت، ہنر اور آرٹ کا ایسا امتزاج جو بہت کم دیکھنے میں ملتا ہے۔ ڈاکٹری کے ساتھ پینٹنگ اور کارٹون بنانے میں اس قدر مہارت جو دیکھنے والے کو دنگ کرے اور آپریشن کرتے ہوئے ایک ایک ٹانکہ ایسے بھرتے جیسے مصور اپنے برش سے سٹروک لگا رہا ہو۔
ہم نے پاکستان کے مختلف شہروں میں بے شمار پروفیسرز کے ساتھ کام کیا، پاکستان سے باہر بہت سینئیر ڈاکٹر ملے مگر جو ہنر پروفیسر صاحب کے ہاتھ میں تھا، وہ کہیں دیکھنے کو نہیں ملا۔
بس ہو گیا فیصلہ، میرا آپریشن وہی کریں گے۔ دل نے سرگوشی کی۔ مگر کیسے؟
جیسے ہوتا ہے۔
کیوں مانیں وقت اور سرحدوں کی حدود کو؟
اور پھر لاہور کون سا بہت دور ہے؟
لیجیے جناب ہم لاہور کی فلائٹ لے رہے ہیں، آپ مزید پڑھنے کے لیے انتظار کیجیے۔

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *