کیا نکلا ویجائنل ڈلیوری کے اٹھارہ برس بعد
|

کیا نکلا ویجائنل ڈلیوری کے اٹھارہ برس بعد

دو ہزار گیارہ کا لاہور؛
لاہور پہنچتے ہی ہم ان کے گھر جا پہنچے۔ دو ہزار ایک سے دو ہزار گیارہ تک ہمارے درمیان استاد شاگرد کا رشتہ انتہائی مضبوط ہو چکا تھا۔ چاہے ہم دنیا کے مختلف حصوں میں ہی کیوں نہ ہوں، بات ہو ہی جاتی تھی۔
لیکن گفتگو ابھی بھی زیادہ طرف یک طرفہ۔ جواب میں ہوں ہاں ہی سننے کو ملتا تھا۔ ہمیں لگتا ہے کہ اگر کبھی ہم ان سے قصہ یوسف پوچھتے تو جواب میں سننے کو ملتا، کچھ نہیں، حضرت یوسف پہلے گم ہوئے پھر مل گئے۔
سر، آپ سے انتہائی ضروری کام ہے۔ ہم نے کہا۔
بتائیے؟
آپ سے آپریشن کروانا ہے۔
ہم ماضی میں اپنی ایک کزن کا آپریشن ان سے کروا چکے تھے وہ قصہ بھی سننے سے تعلق رکھتا ہے
میں پرائیویٹ پریکٹس چھوڑ چکا ہوں، جواب ملا۔
کیوں؟
قدر والے مریض نہیں آتے۔
سر انہیں کیا پتہ کہ آپ کس قدر گُنی ہیں۔
خاموشی۔
سر، آپریشن تو میں آپ سے ہی کرواؤں گی۔
ممکن نہیں۔
کیوں سر؟
فلاں سے کروا لیں۔
نہیں سر۔
فلاں سے کروا لیں۔
سر بات سنیں، پوری دنیا میں اگر مجھے کوئی آپریٹ کرے گا تو وہ صرف آپ ہوں گے۔
خاموشی۔
سر میں ہسپتال کا انتظام کر لیتی ہوں، آپ آپریٹ کرنے کی حامی بھریں۔
دیکھیں جی مشکل ہے اس طرح۔
سر کیا مشکل ہے؟
دیکھیں کسی ہسپتال میں یوں جا کر۔
سر اسے آپ میری ذمہ داری پہ چھوڑ دیں۔
دیکھیں جی بہت اور لوگ ہیں۔ میرے علاوہ؟ نہیں سر، آپ نہیں تو کوئی نہیں۔
آج یہ ڈائیلاگ یاد کرتے ہوئے ہنسی آتی ہے۔
Dr. Aslam
Dr. Aslam
خیر جناب، سر کے گھر سے نکل کر ہم اپنی ایک کزن کو فون کیا جن کی نند کا اپنا ہسپتال تھا وہ بھی مشہور و معروف۔ جب مسئلہ بتایا وہ بھی حیران ہوئیں کہ ہم موصوف سے آپریشن کروانے پہ بضد کیوں ہیں؟ ہم نے دل میں کہا، تم کیا جانو ان کا کمال؟
خیر انہوں نے حامی بھری، ہسپتال کی مالکن سے بات ہوئی اور وہ بھی راضی ہو گئیں۔ ہم نے ان سے اور اینیستھٹسٹ سے بھی مل لیا۔ ہسپتال کا عملہ کچھ حیران کچھ پریشان کہ مریضہ اپنے سرجن کو لے کر آپریشن کروانے آ رہی ہے۔
خیر مقررہ تاریخ پہ ہم ہسپتال پہنچے، سر پہنچے اور پھر ہم سوئے مقتل، یعنی آپریشن تھیٹر۔ ہمارے شوہر کا کہنا ہے جس قدر ہنسی خوشی تم آپریشن تھیٹر جاتی ہے وہ سینما جانے کی خوشی سے کم نہیں ہوتی۔
سنو۔ ہم ہنس کر جواب دیتے ہیں۔ دونوں جگہ فلم چلتی ہے ایک جگہ ہم اداکارہ تو دوسری جگہ خاموش تماشائی۔
بے ہوشی سے پہلے ہم ضرور کہتے ہیں لو جی ہم جا رہے ہیں۔ پھر ملیں گے۔ رب راکھا۔ ( ہو سکتا ہے پچھلے جنم میں ہم ٹرک ڈرائیور رہے ہوں ) ۔ خیر اس دن بھی ان ڈائیلاگز کے بعد رات اندھیری ہو گئی اور بتیاں بجھ گئیں۔
ہوش آیا تو ہم ہسپتال کے کمرے میں بستر پر دراز تھے۔ آپریشن کی تکلیف تھی لیکن وہ تو ہونی ہی تھی۔ دوسرے دن سر راؤنڈ پر آئے تو کافی سیریس نظر آئے۔ اس دن معمول سے کچھ زیادہ بات کی۔
آپ ٹھیک کہتی تھیں، بہت ہی پیچیدہ مسئلہ تھا۔ مقعد کے اندرونی پیچ تو تباہ شدہ تھے ہی، مقعد اپنی جگہ سے ہل کر دائیں طرف جا چکا تھا۔ وہاں اوزار لگنے کی وجہ سے مسلز کے کٹنے پھٹنے سے پوری جگہ تباہ تھی۔ وہیں پہ مقعد کا ہرنیا بن گیا جس میں پاخانہ جمع ہو کر باہر کی طرف اُبھار نظر آتا تھا اور وہیں سے دبا کر حاجت رفع کرنی پڑتی تھی۔ میں نے پوری کوشش کی کہ کچھ ٹھیک کر دوں۔ سو فیصد تو نہیں، شاید ستر فیصد۔ آپ آئیں بھی تو برسوں بعد ( یاد رہے کہ ڈلیوری کو تقریباً اٹھارہ برس گزر چکے تھے ) ۔
دیکھا سر ہم نے کہا تھا نا، آپ کے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا۔ ہم نے مریل آواز میں چہکنے کی کوشش کی۔
ڈاکٹرز کی دلچسپی کے لئے بتا دیں، Ischiorectal herniating۔
ہم نے یہ نام ہی پہلی بار سنا تھا، مریض دیکھنا تو دور کی بات تھی۔
سر کے جاتے ہی چچا گوگل کھول لیا اور ہاتھوں کے توتے اُڑ گئے۔ مقعد کے اندرونی پیچوں کی بوسیدگی کا تو علم تھا مگر چچا کے مطابق ہم پرینیل ہرنیا کا شکار بھی بن چکے تھے۔ مقعد اور ویجائنا کے اطراف کا علاقہ پرینیم کہلاتا ہے۔ پیٹ کے نچلے حصے میں پڑے اعضا ( مثانہ، رحم اور بڑی آنت ) کو پیلوک فلور کے مسلز باہر کی دنیا سے علیحدہ رکھتے ہیں۔ اور اگر یہی مسلز ہی کٹ پھٹ جائیں تو یہ اعضا ادھر ادھر ڈولتے پھریں گے۔ یہی ہوا تھا ہمارے ساتھ۔
ویجائنل ڈلیوری میں لگے اوزاروں نے مقعد کے پیچوں سے لے کر پیلوک فلور کے مسلز تک کو تباہ کر ڈالا تھا اور یہ سزا ہمیں پچیس چھبیس کی عمر میں ملی تھی۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ یہ اوزار لگنے کی انتہائی درجے کی پیچیدگی ہے لیکن اگر یہ ہو جائے تو اس کی شناخت ڈلیوری کے وقت ہی ہونی چاہیے اور اس کی سلائی بھی۔ پرائمری ریپئر تجربہ کار گائناکالوجسٹ کا کام ہے جبکہ سیکنڈری ریپئر کولو ریکٹل سرجن کے دائرہ عمل میں آتی ہے۔ ( ہم کولو ریکٹل سرجن کے پاس کیوں نہیں گئے؟ ہمارے خیال میں پروفیسر اسلم کی مہارت غیر معمولی تھی )
لیکن مسئلہ تو ایک ہی ہے۔ ان اعضا کی پیچیدگی کو ڈیل کرنے کے سامنے بڑے بڑوں کو پتہ پانی ہو جاتا ہے۔ ہم نے بہت سے سپیشلسٹ ڈاکٹرز کو غلط سلائی کرتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اور ایسا اس لیے ہے کہ ویجائنل ڈلیوری کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کی شناخت اور سلائی کی تربیت کا فقدان ہے۔ ڈاکٹرز سے گلہ تو ایک طرف رکھیے، جو آندھ دائیوں اور وارڈز کی مائیوں نے اٹھا رکھی ہے اس کا کیا علاج؟
یہ مضمون لکھتے ہوئے ڈاکٹر اسلم سے اجازت لینے کے لیے بات ہوئی۔ انتہائی دل گرفتہ۔ کہنے لگے کہ وارڈ بوائے اور آیا تک نے میڈیکل سینٹر بنا رکھے ہیں جو عورتوں کی زندگی سے کھیل رہے ہیں۔ جب کوئی مر جائے تو اسے اللہ کی مرضی کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے اور جو کوئی بچ جائے اس کے لیے زندگی عمر بھر کا عذاب بن جاتی ہے۔
مریضوں سے بھی وہ شکوہ کناں تھے۔ لاکھ سمجھاؤ کہ اس بات کا حل ایسے نہیں ایسے ہے، وہ جواب میں یہی کہیں گے کہ نہیں ہمیں تو فلاں نے کہا تھا، یوں کروا لو۔ فلاں نے کہا تھا یہ ٹھیک نہیں۔
یہ سن کر جی چاہا کہ ہم بھی اپنا سر دیوار پہ دے ماریں۔ میسنجر میں ہمیں روزانہ بیسیوں پیغام آتے ہیں۔ ہم تفصیل سے ہر کسی کو جواب نہیں دے سکتے۔ لیکن اگر نظر آ رہا ہو کہ مسئلہ گمبھیر ہے تب ہم ایک مختصر مگر جامع جواب ضرور لکھتے ہیں اور جاننا چاہیں گے آپ کہ اس کوشش کے جواب میں ہمیں کیا پڑھنے کو ملے گا۔ مگر فلاں نے کہا تھا ایسا کروا لو۔ لیکن فلاں نے کہا تھا ایسا نہیں کرنا۔
سوچتے رہ جاتے ہیں کہ بال نوچیں یا سر دیوار میں دے ماریں؟
آپ بتائیے کیا بہتر رہے گا؟
پروفیسر اسلم آج کل اسلام میڈیکل کالج سیالکوٹ میں ہیڈ آف گائنی ہیں۔ ویک اینڈ پہ وہ لاہور میں عسکری ٹین کے پاس کیش اینڈ کیری میں بنے ہوئے کلینک میں آپ کو مل سکتے ہیں۔ پیچیدہ ترین سرجری پروفیسر صاحب کے بائیں ہاتھ کا کمال ؛ بس موڈ برداشت کرنا پڑے گا جو ہم بھی کرتے ہیں۔
پھر نہ کہنا خبر نہ ہوئی

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *