Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
!ہر وقت پیشاب خطا۔ زندگی عذاب
اٹھوں، بیٹھوں، کھانسوں، تیز چلوں، چھینک ماروں۔ ہر بات میں زندگی عذاب ہے۔ کیا کروں؟ ادھیڑ عمر خاتون کی آنکھ میں آنسو تھے۔ وہ…
!آیا ہے کربلا میں غریب الوطن کوئی
ہمارے بچپن میں جب محرم آتا تو سکول کی بیشتر لڑکیاں ہمیں دیکھ کے سرگوشیوں میں باتیں کرتیں۔ اورجب ہم متوجہ ہوتے تو خاموشی چھا جاتی۔ ہمارے فرقے کے متعلق مختلف باتیں مشہور کر دی گئیں تھیں۔ مثلا ہم گھر آنے والے مہمان کو مشروب میں اپنا تھوک ڈال کے پلاتے ہیں۔ امام حسین کے نام کی نیاز خون ڈال کے پکائی جاتی ہے۔ نویں محرم کی رات کو روشنی گل کر کے مرد و زن گلے ملتے ہیں۔ یہ لمبی اعتراضات کی فہرست نہ تھی بلکہ نفرت کے بیج تھے جو گزرتے زمانوں میں بوئے جا رہے تھے۔
!پیارا دل دل دل اور اردو کانفرنس
جھوم جھوم کے، اچھل اچھل کے گاتے رہے۔ ہر وقت خیال رہا کہ حسن جہانگیر سے کم نہ لگیں۔ آخر کب تک؟ گا گا کر جب تھک گئے تو سوچا، اب کوئی غمگین گیت۔ مل گیا فوراً۔ لیجیے جناب اب آہیں بھر بھر کے، گہری سانسیں۔ میرے دل کی ہے آواز کہ بچھڑا یار ملے گا۔
آپریشن کروانا ہے مگر کس سے؟
دو ہزار ایک کا راولپنڈی۔ ہماری اور شوہر کی پوسٹنگ گوجرانوالہ ہو چکی تھی۔ نشتر ہسپتال سے سپیشلائزیشن کی ٹریننگ ختم کرنے کے بعد اب ہمیں امتحان دینا تھا۔ احمد نگر چٹھہ کے ہیلتھ سینٹر پہ کام کرنے کے ساتھ ساتھ ہم پڑھائی میں بھی مصروف تھے۔ دوسرا بچہ بھی انہی دنوں پیدا کیا تھا۔ سپیشلائزیشن کے امتحان کے دو درجے ہوتے ہیں پہلا تحریری دوسرا زبانی۔ اگر تحریری پاس کر لیا جائے تو زبانی کا موقع ملتا ہے جس میں اصل مریض بلائے جاتے ہیں۔ مریض کا معائنہ ممتحن کی موجودگی میں کیا جاتا ہے اور پھر مریض کے متعلق سوال و جواب کیے جاتے ہیں۔
!دائی طاہرہ کی ایک رات
کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ ساری رات فون بجتا ہے لیکن جانے کی نوبت نہیں آتی۔ کیفیت سن کے ہی مسئلہ حل۔ فون کی پہلی گھنٹی پہ ہم اس قدر الرٹ سنائی دیتے ہیں کہ فون کرنے والی پوچھتی ہے کیا آپ جاگ رہی تھیں؟ کیا بتائیں کہ نیند آئے بھی تو ایک آنکھ سوتی ہے دوسری جاگتی ہے۔
ادب میں خاتون قلمکار کی ویلڈٹی ، اور بھگوڑا شوہر، اشفاق احمد اور بانو قدسیائی سوچ کی روشنی میں
آفاقی ادب یہ سجھاتا ہے کہ مرد و عورت کے بیچ صنفی فرق کم عقلوں کا ذہنی فتور اور دماغی خلل ہے۔ لیکن اس وقت کیا کیجیے کہ ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا سمجھنے والے بونے ادیبوں کی رائے میں یہی بنیادی فرق بن جائے جس پہ مرد و عورت کو میزان پہ تولا جانے لگے علیحدہ علیحدہ۔ معاشرے کا اصرار ہے ایسی باتیں کتابوں میں رہنے دو، زندگی کا حصہ نہ بناؤ۔