Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
!چھاتی کو سلیٹ بنا دو
چھاتی میں ہونے والی کسی بھی تکلیف کو سرگوشیوں اور دیسی ٹوٹکوں سے حل کرنے کی کوشش اسی شرم کا نتیجہ ہے جو بچپن ہی سے لڑکی پر لاد دی جاتی ہے۔ ایک نارمل عضو کو معاشرتی رویے ایک ایسی بدصورتی میں بدل دیتے ہیں جن سے بلوغت کی سرحد پہ کھڑی بچی اپنے آپ سے شرمندہ رہتی ہے۔
مریضوں کے لواحقین اور ہسپتالوں میں تشدد کا چلن
جب عورت موت کی سر حد پہ جا کے کھڑی ہو جاتی ہے اور قدم قدم پہ زندگی کا اپنے ہاتھ سے پھسلتا ہوا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کرتی ہے
رخصت ہونے والی سے محبت کرنے والوں نے اپنی محبت کا یوں بھرپور اظہار کیا کہ کچھ موت سے لڑتے ہوؤں، جاں بہ لب، کی حیات کے چراغ ایک ہی پھونک سے گل کر دیئے۔
بزنس کلاس؟ ایہہ میں کتھے آ گئی؟ قسط نمبر تین
بزنس کلاس کا بورڈنگ ہاتھ میں پکڑ کر گردن تھوڑی سی تن گئی تھی اور ہم باقی سب مسافروں کو نخوت سے دیکھ رہے تھے۔ سکیورٹی سے گزرنے لگے تو اس نے کہا آپ کے ذمے کچھ قرض واجب الادا ہے، پہلے وہ تو ادا کر دیجیے۔ ہائیں بھیا کب قرض لیا ہم نے تم سے؟ قرض۔ مطلب ٹریفک چالان۔ بیڑا غرق ہو ہمارے دائیں پاؤں کا۔ جب ایکسلیٹر سے گلے ملتا ہے تو ایسی گھٹ کے جپھی ڈالتا ہے کہ گاڑی ایک سو چالیس پہ دوڑنے لگتی ہے۔ ایک سو پینتیس کی سپیڈ پہ سڑک پہ لگے کیمرے کو آپ خوبصورت لگنے لگتے ہیں اور وہ ٹھک سے تصویر کھینچ لیتا ہے۔ ایک تصویر کی قیمت ہے دس ریال یعنی مبلغ ساڑھے سات ہزار پاکستانی روپے۔ اس بار ہماری دو تصویریں کھنچی تھیں سو بیس ریال ادا کیے اور ہمارا قرض ادا ہوا۔
ادب میں خاتون قلمکار کی ویلڈٹی ، اور بھگوڑا شوہر، اشفاق احمد اور بانو قدسیائی سوچ کی روشنی میں
آفاقی ادب یہ سجھاتا ہے کہ مرد و عورت کے بیچ صنفی فرق کم عقلوں کا ذہنی فتور اور دماغی خلل ہے۔ لیکن اس وقت کیا کیجیے کہ ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا سمجھنے والے بونے ادیبوں کی رائے میں یہی بنیادی فرق بن جائے جس پہ مرد و عورت کو میزان پہ تولا جانے لگے علیحدہ علیحدہ۔ معاشرے کا اصرار ہے ایسی باتیں کتابوں میں رہنے دو، زندگی کا حصہ نہ بناؤ۔
!ایاز امیر صاحب، بات اتنی سادہ نہیں
ایاز امیر نے اپنے کالم میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بہت سی باتیں لکھی ہیں۔ لوگ باگ ان کی اس جرات رندانہ کو سراہ رہے ہیں کہ انہوں نے بیٹے کی حرکتوں پہ پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔
لیکن بات اتنی سادہ نہیں۔ قتل پہ افسوس اور اپنے صاحبزادے کے کرتوت لکھ کر وہ اپنی ذمہ داری سے علیحدہ نہیں ہو سکتے۔ وہ ذمہ داری جس کو نباہتے ہوئے بحیثیت باپ وہ سارہ سے ملے، نکاح کی تقریب میں دولہا کے ساتھ ساتھ رہے۔
!امی کی سلائی مشین
یہ کہانی ان دنوں کی ہے جب ایک نوعمر لڑکی بیاہ کے اپنے گاؤں سے شہر آئی۔ وقت اور رواج کے مطابق ابتدائی تعلیم گاؤں میں ہوئی اور سولہ برس کی عمر میں بیاہ کے رخصت کر دیا گیا۔ اجنبی شہر، نہ میکہ نہ سسرال، سو دونوں میاں بیوی زندگی سہل کرنے کے طریقے خود ہی سوچتے۔ چونکہ پاؤں فوراً بھاری نہیں ہوا تھا سو فرصت ہی فرصت۔ دو فرد، ایک دفتر گیا دوسرا حد سے زیادہ پھرتیلا اور گھر کا مختصر کام۔ نمٹانے کے بعد کیا کرے؟