Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
“ریت سمادھی، انور سن رائے اور اماں کا “عضو تناسل
ہاہاہا، ہمارے قہقہے تھے کہ بچوں کو ڈراتے تھے، برگد سے کووں کو اڑاتے تھے اور کچھ لوگوں کے ماتھے پہ شکنیں گہری کرتے تھے۔
سوچیے اگر یہ آپ کی اماں ہوں، اسی برس عمر ہو اور ایک دن ٹوائلٹ سے نکل کر یہ رام کتھا انہی الفاظ میں ایسے ہی سنائیں تو سر گھومے گا نا آپ کا ۔ عجیب ہونق محسوس کریں گے خود کو ، سمجھ کچھ آئے گا نہیں کہ بیٹھے بٹھائے اسی برس کی اماں کو کیا نکل آیا؟ اور کہاں پہ؟
خدا ابھی مجھ سے مایوس نہیں ہوا
میں بہت خوش ہوں، لبوں پہ مسکراہٹ ہے اور آنکھوں میں نمی ! نہیں! کوئی غم نہیں ہے۔ جذبات کے جوار بھاٹے میں آنکھیں تو بھر ہی آیا کرتی ہیں۔ میں نے ابھی ایک پیغام پڑھا ہے اور ایک تصویر دیکھی ہے۔ دل گداز پیغام، روح کو چھو لینے والا۔ تصویر ایک چھوٹی بچی کی ہے۔ بڑی بڑی آنکھیں، سفید لباس، سر پہ پھولوں بھرا ہیئر بینڈ پہنے، بہت معصومیت سے ایک طرف دیکھ رہی ہے۔
بچے کے دل کی دھڑکن یا موسیقی کا انترا مکھڑا
ایسا لگتا ہر بچہ رونالڈو یا میسی کا شاگرد ہے، اچھی بھلی سی ٹی جی میں ایسی کک لگاتا کہ دل اچھل کر حلق میں آ جاتا۔ مڈوائف دوڑتی، ڈاکٹر کو پیجر پہ بلاتی، ڈاکٹر بھاگی آتی، آ کر ویجائنا میں ایک بھونپو نما آلہ ڈالتی، بچے کے سر سے دو قطرے خون نکالتی، مشین میں ڈالتی اور مشین دو منٹ بعد بتاتی کہ بچہ خطرے میں ہے یا نہیں؟ اس مشین کی بابت کتابوں میں ہی پڑھا تھا، تبوک میں زیارت ہو گئی۔ خیر جناب یہی کچھ دیکھتے عید آ گئی، دعوتیں کھاتے جلدی سے گزر گئی اور لیجیے رو برو ہونے کا دن آ پہنچا۔
!دائی طاہرہ کی ایک رات
کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ ساری رات فون بجتا ہے لیکن جانے کی نوبت نہیں آتی۔ کیفیت سن کے ہی مسئلہ حل۔ فون کی پہلی گھنٹی پہ ہم اس قدر الرٹ سنائی دیتے ہیں کہ فون کرنے والی پوچھتی ہے کیا آپ جاگ رہی تھیں؟ کیا بتائیں کہ نیند آئے بھی تو ایک آنکھ سوتی ہے دوسری جاگتی ہے۔
دائی کی سلائی
تارڑ صاحب سے دائی کا لقب تو عطا ہوا ہی تھا اب ایک اور صاحب علم نے ٹیکنیشن کا اعزاز تھما دیا ہے۔ مانا بھئی مانا کہ گائنی سرجری تکنیکی کھیل ہے لیکن جنت مکانی پروفیسر عطا اللہ خان کہا کرتے تھے کہ سیزیرین کرنا کون سا مشکل کام ہے، یہ تو بندر بھی سیکھ جائے گا لیکن سیزیرین کب کرنا ہے، کب نہیں اور سیزیرین کے بیچ ہوئی پیچیدگی کو کیسے سنبھالنا ہے، یہ ہر کوئی نہیں سیکھ سکتا۔
بونے آدمی اور عورت کا سہارا
لکھا تو نامی گرامی مرد نے تھا پر عنوان بڑا زنانه تھا۔ (زنانہ جمہوریت) پڑھا تو اندر سے اور بھی زنانہ تھا۔ عورت اور ہیجڑے میں بال برابر فرق نظر آیا تھا انہیں۔ خیر ہیجڑا بھی ہماری طرح ہی کی مخلوق ہے اس لئے ہمیں تو فرق نہیں پڑتا لیکن وہ زندگی کو کس رخ سے دیکھتے ہیں، اس کی قلعی کھل گئی۔