Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
!ہر وقت پیشاب خطا۔ زندگی عذاب
اٹھوں، بیٹھوں، کھانسوں، تیز چلوں، چھینک ماروں۔ ہر بات میں زندگی عذاب ہے۔ کیا کروں؟ ادھیڑ عمر خاتون کی آنکھ میں آنسو تھے۔ وہ…
!کالے رنگ نوں گورا کر دے تے گورے نوں چن ورگا
”بیٹا گورے رنگ سے کچھ نہیں ہوتا، تم دیکھو تمہاری آنکھیں کس قدر خوبصورت۔ تمہاری ناک کتنی پیاری۔ بال اتنے گھنے“
”نہیں ماں رنگ تو اتنا ڈارک ہے میرا یہ دیکھیں آپ کی بازو اور میرا بازو۔ سفید فراک پہن کر اچھی ہی نہیں لگتی“
وہ بازو پھیلائے کھڑی تھی اور ظالم وقت ہمیں کچھ یاد کروا رہا تھا۔
کپتان کا بت ٹوٹ گیا
ہمیں وہ دن بھی یاد ہیں جب ہم کالج کی کلاسوں سے بھاگ کے کپتان کا میچ دیکھنے قذافی سٹیڈیم جاتے تھے۔ ہر لڑکی یوں بنتی سنورتی، جیسے کپتان کھیلنے نہیں، بر چننے آ رہا ہے۔ وہ جب باؤلنگ کروانے کے لیے لمبا سٹارٹ لیتا، لوگوں کے دل کی دھڑکن رک رک جاتی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا لوگ کرکٹ نہیں، کپتان دیکھنے جاتے تھے۔
!ڈاکٹر بیٹی کی کنپٹی پر گولی
مگر سب بچیاں تو اتنی خوش قسمت نہیں ہوتیں ، میانوالی کی لیڈی ڈاکٹر سدرہ بھی انہی میں سے ایک تھیں ۔ باپ کا اصرار تھا کہ شادی ان پڑھ کزن سے ہو گی ۔ جبکہ ڈاکٹر سدرہ کا جواب نفی میں تھا۔ ڈاکٹر سدرہ گھر بھی چھوڑنا نہیں چاہتی تھیں تاکہ کوئی ان کے کردار پہ انگلی نہ اٹھا سکے ۔ ہمسایوں کے مطابق اسے کئی بار تشدد کا نشانہ بنایا جا چکا تھا مگر بیٹی نے والدین کے خلاف کسی قسم کا ایکشن نہیں لیا ۔
آپ عیسائی کیوں نہیں ہو جاتے؟
حال ہی میں ایک وڈیو کلپ دیکھنے کوملا، جس میں ایک مسلمان نوجوان شدید کرائسس کی حالت میں بھی جیسنڈا کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کر رہا ہے جس کا اختتام اس آرزو پہ ہے کہ وہ جیسنڈا کو مسلمان ہونا دیکھنا چاہتا ہے۔
!ایاز امیر صاحب، بات اتنی سادہ نہیں
ایاز امیر نے اپنے کالم میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بہت سی باتیں لکھی ہیں۔ لوگ باگ ان کی اس جرات رندانہ کو سراہ رہے ہیں کہ انہوں نے بیٹے کی حرکتوں پہ پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔
لیکن بات اتنی سادہ نہیں۔ قتل پہ افسوس اور اپنے صاحبزادے کے کرتوت لکھ کر وہ اپنی ذمہ داری سے علیحدہ نہیں ہو سکتے۔ وہ ذمہ داری جس کو نباہتے ہوئے بحیثیت باپ وہ سارہ سے ملے، نکاح کی تقریب میں دولہا کے ساتھ ساتھ رہے۔