Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
اکلیمپسیا جو حاملہ عورت کو موت کے منہ میں بھی لے جاسکتا ہے
یہ گنگارام اسپتال کا لیبر روم تھا۔ ہم فائنل ائر میں پڑھتے تھے اور گائنی ڈیوٹی پر معمور تھے۔ ہمارے ساتھ پڑھنے والی زیادہ تر لڑکیوں کو نہ تو گاؤں کی زندگی کا علم تھا اور نہ ہی گاؤں کے آس پاس بنے قصبات کی مشکلات کا اندازہ تھا۔ اتفاق سے ہم گاؤں اور قصبات کی حالت سے نہ صرف واقف تھے بلکہ شاید ان سب مشکلات کو سمجھتے بھی تھے۔ امی ابا کا گاؤں سے تعلق رکھنا اور گاؤں والوں کا علاج کے لیے شہر کے اسپتال پہنچنا حافظے میں محفوظ تھا۔
!جب آنول راستے کا سانپ بن جائے
مریض کو سیدھا آپریشن تھیٹر شفٹ کروایا۔ جلدی سے میز پر ڈالا، بلڈ پریشر بہت نیچے تھا۔ انیستھیٹسٹ نے دونوں طرف او نیگیٹو بلڈ شروع کیا۔ پیٹ سے کپڑا ہٹا کر دیکھا، بچہ دانی تھیلا بنی بہت سی پٹیوں میں لپٹی ہوئی تھی لیکن سب خون میں بھیگ چکی تھیں۔ سب ایک ایک کر کے باہر نکالیں۔ بچے دانی کے نچلے حصے سے آنول نکالی تو جا چکی تھی لیکن وہاں سے خون کا اخراج ابھی بھی جاری تھا۔ کچھ ٹانکوں کے نشان بھی نظر آرہے تھے۔ مریض کی رنگت کاغذ کی طرح سفید، مانو خون کا ایک قطرہ تک نہیں۔
!ایاز امیر صاحب، بات اتنی سادہ نہیں
ایاز امیر نے اپنے کالم میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بہت سی باتیں لکھی ہیں۔ لوگ باگ ان کی اس جرات رندانہ کو سراہ رہے ہیں کہ انہوں نے بیٹے کی حرکتوں پہ پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔
لیکن بات اتنی سادہ نہیں۔ قتل پہ افسوس اور اپنے صاحبزادے کے کرتوت لکھ کر وہ اپنی ذمہ داری سے علیحدہ نہیں ہو سکتے۔ وہ ذمہ داری جس کو نباہتے ہوئے بحیثیت باپ وہ سارہ سے ملے، نکاح کی تقریب میں دولہا کے ساتھ ساتھ رہے۔
مونا لیزا کی پراسرار مسکراہٹ اور لیونارڈو ڈاونچی
لیونارڈو نے مصوری کی اور کیا خوب کی۔ وہ اپنے آپ کو بام کمال تک پہنچانے کے لئے انسانی جسم کی تفصیلات جاننے کے لئے میڈیکل سکول جا پہنچا جہاں مردہ جسموں کی چیر پھاڑ کر کے اناٹومی کا علم سیکھا جاتا تھا۔ کون سی ہڈی پہ کون سا مسل لگا ہے، اس کا پتہ لیونارڈو کی ڈرائنگ سے بھری ڈائریوں سے چلتا ہے جس میں رحم مادر کے اندر بڑھنے والے بچے تک کو دکھایا گیا ہے۔ بعد میں آنے والی میڈیکل سائنس نے ان ڈرائینگز سے خوب استفاده کیا۔
عورت کا اپنا آسمان
ہمیں یہ نہیں معلوم کہ معاشرے کے چلن کے برعکس وہ عورتوں کے حقوق اور آذادی کے اتنے شدید حامی کیسے اور کب ہوئے لیکن بقول اماں کے کچھ تو شروع سے ہی زمین نم تھی کہ انہیں پڑھی لکھی اور با اعتماد عورت سے مکالمہ کرنا اچھا لگتا تھا جس کے پاس مرد کی آنکھ میں آنکھ ڈال کے جواب دینے کا حوصلہ ہو اور جو کسی استحصال کا شکار نہ ہو۔
مونے کے واٹر للیز۔ پیرس کی آرٹ گیلری، ایک طلسم کدہ
اور آج دن تھا، مونے دیکھنے کا۔ بہت سال پہلے میں مونے کی محبت میں گرفتار ہوئی۔ مونے کے بنائے ہوئے پانی میں تیرتے ہوئے للیز، کنارے پہ جھکے درخت اور ان کا عکس۔
میں جب بھی کسی ملک جاتی ہوں چاہے میڈیکل کانفرنس میں جاؤں یا گھر والوں کے ساتھ۔ وہاں کی آرٹ گیلیریز جانا اور وہاں گھنٹوں بتانا ایک ایسا شوق ہے جو کبھی کم نہیں ہوا۔