Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
چوری کے شبے پر جان لینے والے جناور اور تماشا کرنے والے زومبی
کسی بھی قوم یا فرد کا انسانی قدروں کو خیرباد کہنے کا بدلاؤ ایک دن کی بات نہیں ہوا کرتی۔ یہ عشروں پہ محیط کہانی ہوا کرتی ہے۔ ہم نے اپنے معاشرے کو بتدریج اخلاقیات اور انسانیت کے درجے سےمحروم ہوتے دیکھا ہے۔ تشدد آمیز، بہیمانہ حیوانی عمل میں مبتلا چلتی پھرتی لاشیں ایک دن میں وجود نہیں آئیں۔
!رحم کرنا ڈاکٹر۔ چھوٹے بچے ہیں میرے
ڈاکٹر پلیز آپریشن ٹھیک کرنا، اچھے سے۔ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔
ہائیں اب کیا کہیں؟ کیا اپنی تعریف کے پل باندھیں یا کچھ اور؟
ڈاکٹر، گھر میں چھوٹے چھوٹے بچے ہیں میرے۔
دیکھو بچے تو ہمارے بھی ہیں، اور ہمیں تو چھوٹے ہی لگتے ہیں باوجود ان کے احتجاج کے۔ اماں ہم گود والے بیبیز نہیں رہے اب۔
!پیارا دل دل دل اور اردو کانفرنس
جھوم جھوم کے، اچھل اچھل کے گاتے رہے۔ ہر وقت خیال رہا کہ حسن جہانگیر سے کم نہ لگیں۔ آخر کب تک؟ گا گا کر جب تھک گئے تو سوچا، اب کوئی غمگین گیت۔ مل گیا فوراً۔ لیجیے جناب اب آہیں بھر بھر کے، گہری سانسیں۔ میرے دل کی ہے آواز کہ بچھڑا یار ملے گا۔
ادب میں خاتون قلمکار کی ویلڈٹی ، اور بھگوڑا شوہر، اشفاق احمد اور بانو قدسیائی سوچ کی روشنی میں
آفاقی ادب یہ سجھاتا ہے کہ مرد و عورت کے بیچ صنفی فرق کم عقلوں کا ذہنی فتور اور دماغی خلل ہے۔ لیکن اس وقت کیا کیجیے کہ ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا سمجھنے والے بونے ادیبوں کی رائے میں یہی بنیادی فرق بن جائے جس پہ مرد و عورت کو میزان پہ تولا جانے لگے علیحدہ علیحدہ۔ معاشرے کا اصرار ہے ایسی باتیں کتابوں میں رہنے دو، زندگی کا حصہ نہ بناؤ۔
!مشتاق احمد یوسفی اور ضیا محی الدین ہنستے ہیں
بعض خواتین جس انداز سے چہل قدمی کرتی ہیں اسے چہل قدمی کہنا مناسب ہو گا۔ مرزا عبدالودود کہتے ہیں کہ چال کی خوبی سے ہی چال چلن کی خرابی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ( قہقہے اور تالیاں ) ۔ اس قیامت کا نظارہ کسی کو سامنے سے دیکھ کر نہیں ہوتا، پیچھے سے ہی دیکھ کر کھلتا ہے ( قہقہے ) چال کی چاپ اور چھب چھاب کیسی ہے، ایک خوبی ہو تو بیان کریں؟ ( قہقہے )
سفر کی مشکلات اور سپین کا ویزا
چچا سام نہیں، چچا لفتھانسا! چچا لفتھانسا کا بس نہیں چلتا تھا کہ بڑھیا کو کچا چبا جائیں۔ بھئی حد ہوتی ہے۔ دن مہینے گزرتے چلے جا رہے ہیں اور بڑی بی کے مزاج ہی نہیں ملتے کہ معاملہ ختم کریں۔ چچا کی بڑبڑاہٹ ہم تک پہنچ رہی تھی ان خطوں کے ذریعے جو ہر دوسرے دن کمپیوٹر کے لیٹر بکس میں پائے جاتے تھے۔ جب کسی بھی طرح ہم نے کان نہ دھرا تو وارننگ کا خط آ گیا کہ بس بی بی بس۔ اب ہم کھاتہ بند کیے دے رہے ہیں، تم آرام سے گھر بیٹھو!