اگر عورت بچہ نہ پیدا کرے تو ؟ 

اگر عورت بچہ نہ پیدا کرے تو ؟ 

اگر عورت بچہ نہ پیدا کرے تو ؟ 

سیدھا سا سوال ہے اور اتنا ہی سادہ جواب:
دنیا میں لوگ نہیں ہوں گے …
کون لوگ ؟ 
لوگ … پوری دنیا کے لوگ …
دنیا کی رونق لوگ …
دنیا کا کاروبار چلانے والے لوگ … 
جو معیشت کی ریڑھ کی ہڈی
توپوں کا چارہ …
جنگوں کی خوراک …
اچھا اور کیا کچھ کرتے ہیں؟ 
کارخانوں میں دن رات کام کرتے _ دیہاڑی پر سڑکیں کوٹنے _
فصلیں اگانے اور کاٹنے والے _ جہاز اڑانے والے _
سرحدوں کا تحفظ کرنے والے _ ہسپتال چلانے والے _
سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو چلانے والے اور ان میں آئندہ نسلوں کو تیار کرنے والے _ ریسرچ کرنے والے   دوائیاں بنانے والے _
کتابیں لکھنے والے _ فلم اور ڈرامے بنانے والے اور ان میں کام کرنے والے _
خلا میں جانے والے _ پہاڑوں پہ چڑھنے والے _
فوڈ انڈسڑی میں کام کرنے والے _ بجلی بنانے والے _
ٹوائلٹ  ٹھیک کرنے والے _ کوڑا اٹھانے والے _
وغیرہ _
وغیرہ _
وغیرہ _
کس کس کا نام لیں اور کس کس کا نہ لیں __
 
اب سوال کو دوسری طرح سے سمجھنے کی کوشش کیجیے ؛ 

کہاں سے آئے ہیں اور کہاں سے آتے رہتے ہیں یہ لوگ؟ 
کون اپنی جان پہ کھیل کے پیدا کرتا ہے ان لوگوں کو ؟ 
کون رکھتا ہے انہیں پیٹ میں نو ماہ ؟ 
 
چلیے ہم نے مانا کہ مرد کا نظفہ نہیں ہو گا تو عورت کی کوکھ بھی ویران رہے گی … 
لیکن کوکھ کی قبولیت کے بعد ؟ 
مرد جرثومہ دے کر فارغ … فکر نہ فاقہ … عیش کر کاکا ۔ 
یہ فصل عورت کے جسم میں بوئی جاتی ہے … اور چاہا جاتا ہے کہ بار بار  _ بنا کسی احساس کہ کھیتی میں فصل سنبھالنے کی ہمت باقی ہے کہ نہیں ؟  کھیتی کی ٹوٹ پھوٹ اسے ایک اور فصل اگانے کی اجازت دیتی ہے کہ نہیں ؟  فصل عورت کی زندگی کی صورت میں تاوان لے گی کہ نہیں ؟  اور اگر عورت پل صراط پار کرتے ہوئے بچ بھی گئی تب بھی بات تو ختم نہیں ہو گی بلکہ یوں کہیے کہ پارٹی تو  شروع ہوتی ہے زچگی کے بعد ۔  ایک کیڑے جیسی جان کو دن رات ہلکان ہونے کے بعد عورت اس قابل بناتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے آپ کو سنبھال لے بلکہ دنیا کا کاروبار بھی اپنے کندھے پر اٹھا لے … عورت ہی کا کارنامہ ہے یہ _
 
عورت یہ سب کرتی ہے خوشی سے ، یا شاید وہ میڈل لینے کے لیے جس پہ لکھا ہے عورت کی تکمیل ماں بن کر ہوتی ہے ۔ عورت کا سب سے بہترین روپ ماں ہے _ عورت جب تک ماں نہیں بنتی اس کی زندگی کا مقصد پورا نہیں ہوتا  
 پدرسری نظام اس پہ بھی راضی نہیں ہوتا ۔ عورت کی خوشی اور راضی برضا رہنے کو زیرو بناتے ہوئے اس کی ذات کو معاشرے سے منفی کر دیتاہے ۔ 
عورت کو گھر سے نہیں نکلنا چاہیے _ عورت کو کیرئر بنانے کی ضرورت نہیں _
عورت کا بنیادی کام بچے سنبھالنا ہے ۔ 
راتوں کو جاگنا، بچے کی بیماری دیکھنا ، بچے کو سکول بھیجنا ، بچے کو کھلانا،  پلانا ، نہلانا ، بہلانا ، اٹھانا ، سلانا ، سکھانا ، سمجھانا ، بتانا ، پڑھانا …. عورت کا کام ہے جی ۔ 
بچے پیدا ہونے کے بعد نہ وہ عورت،  عورت رہتی ہے اور نہ انسان
. وہ صرف اور صرف ماں بن جاتی ہے جس کی زندگی کا مقصد بچے کی دیکھ بھال کے سوال کچھ اور نہیں رہ جاتا ۔ نہ صرف دیکھ بھال بلکہ بچے کی تربیت کا بوجھ بھی صرف اس کے کاندھوں پر
اس کی خواہشات ، دلچسپیاں ، عزائم  سب کی سب قربان اور بدلے میں اسے عقیدت کے چبوترے پہ چڑھا کر اطمینان دلا دیا جاتا ہے کہ بی بی بڑا اونچا مقام ہے تیرا   اس بلند مقام کے باوجود مرد کاجب جی چاہتا ہے، اپنے بچوں کی ماں کو نہ صرف ذلیل کرتا ہے بلکہ اکثر گھر سے نکال کر یہ ثابت کرتا ہے کہ اس کا وجود ردی ہے۔  سوال یہ ہے کہ بچہ دو لوگوں کی combined product ہے لیکن دوسرا فرد نہ اپنے کیرئیر کی قربانی دیتا ہے نہ خواہشات کی نہ دلچسپیوں کو پس پشت ڈالتا ہے نہ دوستوں کی محفلوں کو _ وہ ہر قسم کی ذمہ داری سے مبرا سمجھا جاتاہے سوائے مالی ذمہ داری کے  _ اور وہ بھی احسان جتلا کے ، کبھی وہ بھی نہیں۔ سمانی ، ذہنی ، جذباتی ، معاشرتی ، اخلاقی نشوونما کی ذمہ داری صرف اور صرف عورت پر … 
یہ پیغام دیکھیے:
“میرے چار بچے ہیں سولہ سال کی عمر میں شادی ہوئی شادی کو سات سال ہوئے ہیں چار بچے ہیں شوہر نا خرچہ دیتے ہیں نا کوئی ذمہ داری پوری کرتے ہیں۔” 
( ایسے ہزاروں پیغام ہمارے میسنجر میں آتے ہیں) ۔
اب آتے ہیں پھر سے اس سوال کی طرف _ یہ اطلاع تو ہمیں تھی کہ ایشیا کے کئی ممالک میں جینڈر گیپ بہت زیادہ ہے۔ وجہ وہی گھسی پٹی، بوسیدہ پدرسری تھیوریز۔ سو ان ممالک کی عورتوں نے کچھ برس پہلے فیصلہ کیا کہ وہ بچے پیدا نہیں کریں گی۔ وہ دنیا کی معیشت کو درکار سب  لوگوں کے لیئے اپنی ذات قربان نہیں کریں گی _
دکھ سہیں بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں … کیوں؟ 
وہ ثابت کریں گی کہ اگر وہ اپنے رحم کی فیکٹری کی پیداوار روک دیں تو دنیا وہ سب نہیں کر سکتی جو چاہتی ہے۔
ایسا کافی برس پہلے ہوااور اب نتیجہ سب کے سامنے آ رہا ہے۔ 
لوگ کم ہو گئے ہیں لوگ کم ہورہے ہیں لوگوں کی تعداد خطرناک حد تک کم ہوگئی ہے۔ اور کون سی تعداد کم ہوئی ہے؟ نوجوانوں کی تعداد، مستقبل کی ماؤں کی تعداد۔
اب ان سب ممالک کی حکومتیں سر جوڑ کر بیٹھی ہیں کہ بچوں کی پیدائش میں اضافہ کیسے کروایا جائے؟ مطلب عورتوں کو راضی کیسے کیا جائے کہ بیبیو مان جاؤ اور معیشت کی توپ میں استعمال ہونے والے چارے کو پیدا ہونے سے مت روکو۔ ٹیکس میں چھوٹ، سود کے بغیر قرضے اور دوسری بے شمار سہولیات عورت کو رام کرنے کے لیے پیش کی جا رہی ہیں۔ 
مصنوعی طریقوں سے شاید بچے تو پیدا بھی ہونے لگیں لیکن یہ سہولت تو صرف جانوروں کے بچوں کے پاس ہی ہوتی ہے کہ پیدا ہوتے ہی اٹھ کر کھڑا ہوجائے ۔ انسان کا بچہ تناور درخت بننے میں وقت بھی چاہتا ہے اور نگہداشت بھی۔ 
یہ پڑھ کر بے اختیار ہم نے سوچا کاش ہمارے ملک کی عورت بھی اپنی ذات کو اہم سمجھے _ یہ جان لے کہ اسی کا جسم اپنی بھینٹ دے کر دنیا بناتا ہے۔ 
سو کیا ڈرنا نہیں چاہئے اس دن سے جب دنیا کے ہر خطے کی عورت نے یہ ٹھان لی کہ وہ بچہ نامی مخلوق پیدا کرے گی تو صرف اپنی مرضی سے۔ 

کیا آپ اسے میرا جسم میری مرضی سے جوڑ کر دیکھنا اور سمجھنا بھی پسند کریں گے؟

Similar Posts

4 Comments

  1. وہ سب لوگ جنہوں نے ایک جملہ پڑھ کر ہذیان بکا تھا اب انہیں معذرت کر کے اپنے وقار کو بچا لینا چاہیے۔ میں شاید خوش قسمت ہوں کہ سب سے پہلے اس موضوع کو کھول کر بتانے کی کوشش کی کہ یہ جملہ فرضی نہیں حقیقی خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے۔

  2. بوہت اچھا سلسلہ ہے اہل علم تو بوہت لوگ ہوتے ہیں مگر علم بانٹنا کی سعادت ہر کسی کے نصیب میں نہیں اسی طرح آگاہی بنتی رہیں خوش رہیں آباد رہیں

  3. بہت خوب لکھا ۔ اور خوبصورتی سے اپنی بات کی وضاحت کی

    اس تمام واقعہ سے جو ایک بات بہت واضح ہے، وہ یہ کہ ہمارا جلد باز معاشرہ آدھا ادھورا پڑھ کر پورا سمجھتا ہے اور غلط سمجھتا ہے، ایک لفظ سے پوری کہانی بنانا اس کے اطوار میں شامل ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *