کیا ڈاکٹر کو سیزیرین ہسٹرکٹمی کرنی آتی ہے

کیا ڈاکٹر کو سیزیرین ہسٹرکٹمی کرنی آتی ہے ؟

کیا ڈاکٹر کو سیزیرین ہسٹرکٹمی کرنی آتی ہے ؟

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

جلدی آئیں مریضہ کی زچگی ہوئی تھی تین چار گھنٹے پہلے بہت جلدی ڈلیور ہو گئی تھی۔ شک ہوا تھا کہ بچے دانی کا منہ کچھ پھٹ گیا ہے __دیکھ کر ٹانکے بھی لگا دئیے تھے ۔ لیکن مریضہ کی بلیڈنگ نہیں رک رہی ….

چلی گاڑی ہماری اس طرف … جہاں ایک عورت زندگی اور موت کے بیچ کھڑی تھی ۔

مریضہ کو بے ہوشی دی جا چکی تھی ۔ ویجائنا کا معائنہ کیا تو سب ٹھیک تھا لیکن خون مسلسل بہہ رہا تھا ۔ اگلا قدم بچے دانی کامعائنہ تھا ۔ بچے کی پیدائش کے بعد اگر بچے دانی ڈھیلی پڑ جائے تب بھی خون بہتا رہتا ہے اور اگر بچے دانی پھٹ جائے تب بھی __
بچے دانی ڈھیلی نہیں تھی ، سکڑاؤ اچھا تھا ۔
پھر یہ خون کہاں سے آرہا ہے ؟
سروکس دیکھنا چاہئے ۔
بچے دانی کے منہ کو سروکس کہتے ہیں ۔ جب حمل نہیں ہوتا تب یہ بند رہتا ہے لیکن زچگی میں یہ درد کے ساتھ کھلنا شروع ہوتا ہے اور زچگی تب ہی ممکن ہوتی ہے جب یہ دس سینٹی میٹر یا چار انچ کھل جائے ۔

سروکس کا معائنہ کرنا تکنیکی طور پہ کافی مشکل ہوتا ہے ۔ ایک تو سروکس بہت زیادہ کٹا پھٹا ہوتا ہے اور دوسرا زچگی کے بعد اتنا نرم کہ جہاں سے بھی اوزار کی مدد سے پکڑو ، مزید کٹتا پھٹتا جائے ۔
اسکا حل یہ ہوتاہے کہ اوزار کو بالکل نہ کھینچا جائے اور ایک انچ کے فاصلے پر اوزار لگاکر آگے بڑھتے جائیں تاوقتیکہ سروکس کا آخری سرا نظر آجائے ۔

معائنے کے بعد پتہ چلا کہ سروکس کے دونوں کونے پھٹ چکے ہیں اور وہاں سے تیزی سے خون بہہ رہاہے۔ ایسا صرف اسوقت ہوتا ہے جب سروکس دس سینٹی میٹر کھلا نہ ہو اور زچہ زور لگا کر بچہ باہر دھکیلنے کی کوشش کرے ۔
زیادہ تر خواتین سمجھتی ہیں کہ وہ جس قدر جلدی زور لگانا شروع کریں گی اتنی جلد بچہ پیدا ہو جائے گا ۔ جبکہ سروکس کے پورا کھلنے سے پہلے ایسا کرنا اسے بری طرح پھاڑ دیتا ہے ۔

سروکس کو آہستہ آہستہ پکڑتے ہوئے پھٹے ہوئے آخری سرے تک پہنچنا چاہا تو پتہ چلا کہ آخری سرا تو ہماری اپروچ میں ہی نہیں ۔ سروکس پھٹ کر بچے دانی کے نچلے حصے تک جا پہنچا تھا جس تک ویجائنا کے راستے پہنچنا ممکن ہی نہیں تھا ۔
خون تیزی سے بہہ رہا تھا ۔
ہمیں پیٹ بھی کھولنا ہو گا … ہم نے اعلان کیا ۔ ڈبل سیٹ اپ …
ڈاکٹر بی کو کال کریں کہ ہمیں ایک اور ٹیم کی ضرورت ہے ۔

ڈبل سیٹ اپ میں ایک ٹیم مریض کا پیٹ کھولتی ہے اور دوسری ٹیم ویجائنا کو سنبھالتی ہے ۔ بچہ دانی ، سروکس اور ویجائنا تکنیکی طور پہ بہت مشکل جگہ پہ ہوتے ہیں اور وہی گائناکالوجسٹ ان معاملات کو سلجھا سکتے ہیں جن کا بڑے ہسپتالوں میں کام کرنے کا تجربہ ہو۔

دوسری ٹیم آ چکی تھی اور انہوں نے ویجائنا کا محاذ سنبھال لیا تھا ہم تیزی سے پیٹ کھول رہے تھے۔ سب سے مشکل کام بچے دانی کے گرد پیشاب کی نالیوں ureters سے بچ بچا کر نکلنا ہے۔ پیشاب کی نالیاں گردوں سے مثانے کو جاتے ہوئے بچے دانی کے اس قدر قریب سے گزرتی ہیں کہ اکثر بلیڈنگ روکتے ہوئے اوزاروں کی زد میں آ جاتی ہیں سو ہر گائناکالوجسٹ کےلئے مثانہ اور پیشاب کی نالیاں ڈراؤنا خواب ہوتی ہیں۔
مری کے سروکس میں جو کٹاؤ تھا وہ بچے دانی کے نچلے حصے تک آ پہنچا تھا۔ ہم اس کٹاؤ کو اوپر سے سی رہے تھے اور ہماری ساتھی اسے ویجائنا کے راستے سنبھال رہی تھیں۔ پیٹ میں ہماری انگلی اور ویجائنا میں ڈاکٹر بی کی انگلی ٹٹول ٹٹول کر وہ کٹاؤ کو سینے میں مدد کر رہی تھیں ۔ یہ کٹاؤ نارمل ڈلیوری کے نتیجے میں آیا تھا۔ شاید بچے کا وزن زیادہ تھا یا شاید ماں نے غلط موقعے پہ زور لگایا تھا یا شاید مڈ وائف مریضہ کو درست طریقے سے گائیڈ نہیں کر سکی تھی۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اگر ڈبل سیٹ اپ سرجری میں کٹاؤ نہ پکڑا جا سکے اور ڈاکٹرز بلیڈنگ نہ روک سکیں تب مریضہ کی جان بچانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ بچے دانی نکال دی جائے اس آپریشن کو سیزیرین ہسٹرکٹمی کہتے ہیں اور یہ زچگی کے عمل کا اہم ترین آپریشن ہے۔

ہمارے پروفیسر ڈاکٹر عطااللہ خان کہا کرتے تھے کہ اگر کسی ڈاکٹر کو سیزیرین ہسٹرکٹمی نہیں آتی تو اسے کسی عورت کی زچگی کی ذمہ داری نہیں اٹھانی چاہئے۔ یہ زندگی بچانے والا آپریشن ہے اور بدقسمتی سے چھوٹے شہروں میں پریکٹس کرنے والے ڈاکٹر اتنے تجربہ کار نہیں__ وہ سیزیرین تو کر سکتے ہیں لیکن سیزیرین ہسٹرکٹمی اس سے بہت آگے کا آپریشن ہے ۔

یہ بالکل ایسا ہے کہ جہاز کا پائلٹ انجن فیل ہونے کی صورت میں جانتا ہی نہ ہو کہ کیا کرنا ہے ؟ یا پھر بس ڈرائیور بریک لگانا نہ جانتا ہو ۔

وہ سب لوگ جو نارمل ڈلیوری چاہتے ہیں انہیں اپنی ڈاکٹر سے صرف ایک سوال پوچھنا چاہئے ، اگر خون بہنا بند نہ ہوا ، اگر بچے دانی پھٹ گئی تو کیا آپ کو ایمرجینسی سیزیرین ہسٹرکٹمی کرنی آتی ہے ؟

اگر ہاں میں جواب ہو تو بھلے چیچو کی ملیاں ہو ڈلیوری کروا لیجیے اور اگر نہیں تو پھر یاد رکھیے کہ مریضہ ایسےموت کے کنویں میں سائیکل چلانے جا رہی ہے جہاں وہ پہلے کبھی نہیں اتری۔

ہر زچہ کا یہ حق ہے کہ وہ ایسی جگہ زچگی کے عمل سے گزرے جہاں پیچیدگیاں سے نمٹنے کی سہولت اور ایسا سٹاف موجود ہو جو زندگی کا ضامن بن سکے۔

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *