راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! آٹھویں قسط
|

راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! آٹھویں قسط

محبت چھلاوا ہے۔ اس کی اصل حقیقت بڑی مشکل سے سمجھ آتی ہے۔ کچھ لوگ جو آپ سے اظہار محبت کرتے ہیں اتصال جسم کے خواہاں ہوتے ہیں۔ کچھ آپ کی روح کے لئے تڑپتے ہیں۔ کسی کسی کے جذبات پر آپ خود حاوی ہو جانا چاہتے ہیں۔ اس لئے لاکھ چاہو ایک آدمی آپ کی تمام ضروریات پوری کر دے، یہ ممکن نہیں۔ انسان جامد نہیں ہے بڑھنے والا ہے۔ اوپر، دائیں، بائیں اس کی ضروریات کو آپ پابند نہیں کر سکتے۔ لیکن سیمی بڑی ضدی ہے وہ محبت کو کسی جامد لمحے میں بند کرنا چاہتی ہے۔

راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! ساتویں قسط
|

راجہ گدھ کا تانیثی تناظر! ساتویں قسط

آفتاب کے کردار کی کمزوریاں ابھر کر سامنے آتی ہیں اور وہ بھی سیمی کی زبانی جس نے اسے ببانگ دہل چاہا۔ لیکن جسے چاہا وہ انتہائی کمزور فطرت فلرٹ مرد نکلا۔ جس نے منگیتر ہونے اور اپنی تنگ نظر گھریلو روایات کا علم ہونے کے باوجود ایک لڑکی سے محبت کا ڈھونگ رچا کر اسے یقین دلایا کہ وہ زندگی اکٹھی گزار سکتے ہیں اور اس کے بعد اپنی بچپن کی منگیتر سے شادی کر لی۔

راجہ گدھ کا تانیثی تناظر چھٹی قسط
|

راجہ گدھ کا تانیثی تناظر چھٹی قسط

حلال و حرام ، سماجی طبقات، وفا اور بے وفائی، جنس اور کردار، آزادیِ نسواں کی خرابیاں، گدھ کی مردار کھانے کی خصلت، حرام و حلال اور پاگل پن کا فلسفہ ، جینی ٹیکس، ماڈرن تعلیم یافتہ عورت کی بے چارگی، اپّر کلاس کی ناکامی ، مڈل کلاس عورت کی وفا ، طوائف کاحرام رزق، شادی ، روحانیت، وغیرہ وغیرہ۔

راجہ گدھ 05
|

راجہ گدھ کا تانیثی تناظر پانچویں قسط؛

بھابھی صولت کم گو کم آمیز اور تیوری دار عورت تھی ۔ اسے خوش گپی ،خوش گفتاری اور ہنسوڑ بازی سے کوئی تعلق نہ تھا۔ چھوٹی سی عمر میں اس کے چہرے پر مردنی کا ایک غلاف چڑھ گیا تھا ۔ پھل بہری جیسے سفید چہرے پر براؤن تتلیوں جیسی چھائیاں پڑی ہوئی تھیں۔ ان کے چہرے کی بجائے ان کے بازو اور پاؤں زیادہ جاذب نظر تھے۔ ان کے ساتھ رہنے میں سب سے بڑی سہولت یہ تھی کہ وہ کام کی بات کرنے کے بعد جھٹ سے روپوش ہو جاتی تھیں۔ ہم دونوں کی گفتگو میں ہر دس قدم کے بعد خود بخود بریک لگ جاتی اس لئے ہم نے رفتہ رفتہ ایک دوسرے سے ضروری باتیں کرنا بھی چھوڑ دیں۔ یہ عورت اگر اس قدر سنجیدہ نہ ہوتی تو مزے دار ہو سکتی تھی لیکن پتہ نہیں کیوں وہ بہت کم کوٹھے پر آتی تھیں۔

راجہ گدھ کا تانیثی تناظر قسط نمبر چار
|

راجہ گدھ کا تانیثی تناظر قسط نمبر چار

وہ آرام سے میری چارپائی پر بیٹھ گئی۔ عمر میں وہ مجھ سے چھوٹی ہو گی لیکن جسم کی ساخت سے لگتا تھا کہ وہ شادی شدہ ہے اور اسی رعایت سے اس کی باتوں میں ایک کھلا ڈلا پکا پن تھا۔ وہ دھنسنے والی عورت تھی اس کے ہاتھ پاؤں اتنے گندمی تھے جیسے ابھی ابھی ڈبل روٹی کا میدہ گوندھتے ہوئے آئے ہوں۔ جسم سے وہ مضبوط نظر آتی تھی اس کی گالوں میں گڑھے پڑتے تھے وہ رسم و رواج، محاورے، شگون کی جکڑ بند عادتوں کی سخت تربیت میں پلی لگتی تھی۔ اس کی ساری سوچ میں اپنی سوچ کا شائبہ تک نہیں تھا، ایسے لگتا تھا کہ جیسے وہ کبھی دبدھا، دہرے راستے اور بلاوجہ فکر کرنے سے آشنا ہی نہ رہی ہو۔ میرے لئے ایسی شخصیت تباہ کن حد تک بورنگ اور نئی تھی۔

راجہ گدھ ۰۳
|

راجہ گدھ کا تانیثی تناظر قسط نمبر تین

سیمی شاہ گلبرگی معاشرے کی پیداوار تھی۔ اس نے موری بند جینز کے اوپر سفید وائل کا کرتا پہن رکھا تھا۔ گلے میں حمائل مالا نما لاکٹ ناف کو چھو رہا تھا۔ کندھے پر لٹکنے والے بیگ میں غالباً نقدی ، لپ اسٹک ، ٹشو پیپر تھے۔ ایک ایسی ڈائری جس میں کئی فون نمبر اور برتھ ڈے درج تھے۔ اس کے سیاہ بالوں پر سرخ رنگ غالب تھا۔ اکتوبر کے سفید دن کی روشنی میں اس کے بال آگ پکڑنے ہی والے لگتے تھے۔کلاس میں پہلے دن چھڑنے والی بحث کو خود کشی کی طرف لے کر جانے والی سیمی ہی تھی۔

راجہ گدھ ۰۲
|

راجہ گدھ کا تانیثی تناظر قسط نمبر دو

کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد سیمی خودکشی کر لیتی ہے ۔ قیوم  اس کی موت کے بعد بے چینی اور اضطراب کا شکار ہے۔  ایسے میں پروفیسر سہیل اسے یوگا کی مشقوں کا مشورہ دیتا ہے۔ قیوم اپنے بڑے بھائی کے ہاں رہائش پذیر ہے اور اسے ریڈیو  پروڈیوسر کی  نوکری مل چکی ہے۔ انہی دنوں  بھابھی کی کزن عابدہ  بھی اولاد نہ  ہونے  پر شوہر اور ساس کے طرز عمل پر   ناراض ہو کر وہ وہاں رہنے آتی ہے۔ عابدہ بہت باتونی ، متجسس اور گھریلو عورت ہے اور آہستہ آہستہ اسی کی تحریک پر قیوم کے اس سے جنسی تعلق بنتا ہے۔ مصنفہ کے نزدیک ان تعلقات کا   پوشیدہ محرک  عابدہ کی اولاد پانے کی خواہش ، شوہر کی دوری اور قیوم  کے لیے جنسی اساس والی یوگا مشقیں ہیں۔ لیکن جب عابدہ  کا شوہر اُسے منانے آتا ہے تو وہ موقع غنیمت جان کرواپس لوٹ جاتی ہے۔   پروفیسر سہیل پاگل پن ، خود کشی اور جینیات کو حرام حلال کی تھیوری سے جوڑ کر قیوم کو سناتا ہے۔

راجہ گدھ
|

راجہ گدھ کا تانیثی تناظر قسط نمبر ایک

راجہ گدھ خریدی، پڑھی اور عقیدت مندوں میں شامل ہو گئے۔ یہ اسیری اس حد تک بڑھی کہ دوسروں کو بھی یہی ناول پڑھنے کی صلاح دینے لگے۔ لگے ہاتھوں بتاتے چلیں کہ آگ کا دریا ، دستک نہ دو اور اداس نسلیں کئی برس پہلے ہی پڑھ چکے تھے۔ لیکن راجہ گدھ میں کیا تھا جو فوراً ہی ہمارے پسندیدہ ناولوں کی صف میں پہلے نمبر پر جا کھڑا ہوا

ذلتوں کے اسیر سترہویں قسط
|

ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ سترہویں/ آخری قسط

مرد کے سانچے میں جنم لینے والا انسان ، سانچے کے ڈیزائن کے مطابق اپنے آپ کو کل اور مکمل سمجھتا ہے اور عورت کو ایک چیز جو اس کی ملکیت ہے۔ وہ اپنی مرضی کرنے کے لیے پیدا ہوا ہے جبکہ عورت اس کی اطاعت کے لیے دنیا میں آئی ہے۔ وہ مالک و حاکم ہے جب کہ عورت محکوم اور غلام ہے۔ عورت کی سوچ ، رائے اور فیصلے کی نہ کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی اجازت ۔ وہ دنیا میں سب کچھ اپنی مرضی کرنے کے لیے آیا ہے جبکہ عورت ہر بات میں اس کی طرف دیکھنے پہ مجبور ہے۔

ذلتوں کے اسیر سولہویں قسط
|

ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ سولہویں قسط

‏‎تیرہ برس کی بچی جس کا جسم ابھی بچپن کی حدود سے نہیں نکلا تھا، جسے زندگی کے سرد گرم سے پالا نہیں پڑا تھا، جو ازدواجی تعلق کی نزاکت نہیں سمجھتی تھی، جسے سکول نہیں بھیجا گیا، جو باپ کی شفقت سے محروم رہی، جو گھر میں محرومیوں کے سائے میں پلی اور جو شادی کو اپنی بڑی بہن کی طرح اچھے کپڑوں اور چوڑیاں ملنے کا موقع سمجھتی ہے۔ اور جسے رقم کے عوض ایک ایسے مرد سے بیاہا جا رہا ہے، ایک ایسے مرد سے جو جنسی مریض ہے۔ لیکن اس بارے میں تو کوئی تحقیق ہی نہیں کی جا رہی۔ تحقیق کی ضرورت بھی کیا ہے کہ رشتہ کرنے کے لیے تو صرف مارکیٹ میں اچھے پیسے ملنے کی بنیاد دیکھی جا رہی ہے۔ یہ رشید کوچوان کی سنگ دلی نہیں تو اور کیا ہے اور یہ سنگ دلی پدر سری کی کئی شکلوں میں ایک بہت عمومی شکل نہیں تو اور کیا ہے؟ ‏‎