ذلتوں کے اسیر پانچویں قسط
|

ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ پانچویں قسط

شادی کے کچھ عرصے بعد ہی علم ہوجاتا ہے کہ گھر میں خاک اڑ رہی ہے۔ ثانیہ فاقے کرنے پر مجبور ہے اور نبیل اپنی پسند کی عورت گھر لانے کے بعد بے نیاز ہو کر شعر و شاعری کی محفلوں میں پھر سے گم ہو چکا ہے۔ وہی طور طریقے جو شادی سے پہلے تھے۔ وہ یہ بات نہیں سمجھنا چاہتا کہ شاعر کی بنیادی انسانی ضرورتوں سے غفلت اس کی سہل پسند فطرت کی عکس ہے اور یہاں شاعر کی شاعری پر سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے جو زندگی کی حقیقت سے بے نیاز نظر آتی ہے۔

ذلتوں کے اسیر چوتھی قسط
|

ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ چوتھی قسط

ثانیہ کے ساتھ دفتر میں کام کرنے والی رضیہ کا باپ مر چکا ہے۔ باپ کے مرنے کے بعد جب ماں نے گھر چلانے کے لئے کام شروع کیا تو محلے والوں نے بیوہ عورت اور اس کی تین بیٹیوں کا جینا دو بھر کر دیا۔ یہ سوال کسی کے لئے اہم نہیں تھا کہ چار افراد کے پیٹ میں روٹی کہاں سے آئے گی؟ اہم تھا تو یہ کہ ایک عورت نے گھر کی بقا کے لئے ملازمت شروع کر دی تھی۔ عورت کا گھر سے نکلنا پدرسری نظام کی بنیاد کو کمزور کرتا ہے جو اس کے بنیادی مہرے مرد کو کسی طور پسند نہیں۔

ذلتوں کے اسیر تیسری قسط
|

ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ تیسری قسط

کیا محبت کے بغیر کوئی کسی کا خیال نہیں رکھ سکتا؟ اگر میں آپ کا خیال نہ رکھتی تو آپ کو مجھ سے محبت نہ ہوتی؟ اور اگر میں لڑکی نہ ہوتی اور ایک لڑکا ہوتی تو آپ کا خیال رکھنے کے باوجود آپ کو مجھ سے محبت نہ ہوتی۔

ذلتوں کے اسیر دوسری قسط
|

ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ دوسری قسط 

نبیل پدرسری معاشرے کی ایک ایسی تصویر ہے جسے جس رخ سے بھی دیکھیں، وہ ملگجی اور داغ دار ہی نظر آتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو شاعر کہتا ہے، دنیا بدلنا چاہتا ہے لیکن اس کے لئے محنت کرنا نہیں چاہتا۔ عورتوں سے دوستی پہ یقین رکھتا ہے لیکن جونہی کسی عورت سے دوستی کرتا ہے، جنسی خیالات میں گم ہو جاتا ہے۔ مردوں کے درمیان بے تکلف دوستی کو تسلیم کرتا ہے لیکن ثانیہ کے پرخلوص التفات کو محض دوستی سمجھنے پر تیار نہیں۔ اس کے خیال میں ایک عورت کسی مرد سے دوستی کے بعد اتنا خیال تب ہی رکھ سکتی ہے جب محبت بھی کرتی ہو۔ وہ ثانیہ کو غیر شادی شدہ اس لئے سمجھتا ہے کہ اس کے خیال میں کوئی بھی شادی شدہ عورت کسی مرد کو دوست بنا کر لگاؤ کا مظاہرہ نہیں کر سکتی۔

ذلتوں کے اسیر پہلی قسط
|

ذلتوں کے اسیر ؛ اردو ناول میں نسائی شعور کا استعارہ پہلی قسط

ایک ایسا ناول جس کا بنیادی کردار ایک ایسی عورت سے متاثر ہو کر بنایا گیا جو اپنے متعدد جنسی معاشقوں، شادیوں، بے راہ روی اور پراسرار موت کی وجہ سے آج بھی یاد کی جاتی ہے۔ ایک ذلت آمیز زندگی گزار کر رخصت ہو جانے والی ہی تو ذلتوں کی اسیر تھی۔ پھر عنوان ذلتوں کے اسیر کیوں؟ کیا یہ کتابت کی غلطی ہے، طباعت کی یا انور سن رائے سے چوک ہو گئی؟ کیونکہ ناول کے نام کا صیغہ واحد نہیں۔