
Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts

!پروفیسر لبنی اعجاز کی مسیحائی
واہ بھئی، ہماری دوست پروفیسر لبنی اعجاز موجود ہیں یہاں تو۔ 2003 کا وہ زمانہ یاد آ گیا جب وہ پروفیسر اسلم کے ساتھ اسسٹنٹ پروفیسر تھیں اور ہم سینئیر رجسٹرار۔ وہ باتیں سننے کی شوقین، ہم باتیں بگھارنے کے۔ نت نئے لباس ان کا بھی شوق، ہمارا بھی، وہ بھی دو بیٹیوں کی ماں، ہم بھی۔ وہ بھی فاطمہ جناح میڈیکل کالج کا چراغ، ہم بھی۔ مشہور گائناکالوجسٹ پروفیسر فخر النسا کی بھتیجی۔ یہاں ہم مار کھا گئے کہ اکلوتی پھوپھی ذہین تو بہت تھیں مگر سادات کی بیٹیوں کے لیے نام لکھ لینا ہی کافی تھا۔
مونے کے واٹر للیز۔ پیرس کی آرٹ گیلری، ایک طلسم کدہ
اور آج دن تھا، مونے دیکھنے کا۔ بہت سال پہلے میں مونے کی محبت میں گرفتار ہوئی۔ مونے کے بنائے ہوئے پانی میں تیرتے ہوئے للیز، کنارے پہ جھکے درخت اور ان کا عکس۔
میں جب بھی کسی ملک جاتی ہوں چاہے میڈیکل کانفرنس میں جاؤں یا گھر والوں کے ساتھ۔ وہاں کی آرٹ گیلیریز جانا اور وہاں گھنٹوں بتانا ایک ایسا شوق ہے جو کبھی کم نہیں ہوا۔
مسز خان کو فلور کراسنگ پر مبارک باد
میڈیا پہ بیٹھ کے چیختی آواز میں نصیحتیں کرنا بہت آسان ہے۔ زندگی کی تلخ حقیقتوں کو دیکھنا اور ان کے لئے آواز اٹھانا صرف احساس اور درد مند لوگوں کا خاصہ ہے اور معلوم یہ ہوتا ہے کہ مسز خان نے زندگی کو اپنے چھپر کھٹ کی اوٹ سے دیکھا ہے، گھونگھٹ کے پلو سے جھانکا ہے، انہیں جنوبی ایشیا میں بسنے والی عورت کی اس زندگی کا براہ راست تجربہ نہیں جس میں عورت صرف چکی کے دو پاٹوں میں نہیں پستی بلکہ سل پر رگڑ کھاتے بٹے تلے مسلسل مسلی بھی جاتی ہے۔
کمسن تتلیوں کے رنگ، لہو اور یوم حساب
ٹین ایج یعنی بیس سال سے پہلے کی عمر انتہائی خطر ناک عمر گنی جاتی ہے۔ اسے بچپن اور نوجوانی کے سنگم پہ کھڑے بچوں کے لئے کیسے سہل بنایا جا سکتا ہے، دنیا بھر کے سائیکالوجیسٹ اس بارے میں بات کرتے ہیں۔ اس عمر کے عذاب سے گزرنے والا بچہ / والی بچی ماں باپ کی ذمہ داری بھی ہے اور ماں باپ کی غیر مشروط سپورٹ کا امیدوار بھی، چاہے لڑکا ہو یا لڑکی۔

!مریض گھیرنے کے گر
آپ کے سوال پہنچ جاتے ہیں ہم تک۔ جواب بھی بے شمار ہیں ہماری زنبیل میں لیکن کب تک سنو گے، کہاں تک سناؤں۔ ستاون برس کی زندگی کا ہر دن اور ہر موڑ ایک کہانی۔ ایک پڑاؤ۔ اور خانہ بدوشی۔
شاعر مشرق کی روح تڑپتی تو ہو گی
ہم سمجھتے ہیں کہ جن لوگوں نے باقاعدہ طور پہ شاعروں کو نہیں پڑھا ہوتا تو اس میں ان کا کوئی قصور نہ تھا، ایسے لوگ دیکھنے کو ملے جنہیں نہایت ادب سے جب بتایا گیا تو انہوں نے اسے خوش دلی سے قبول کیا، ایسوں کے ساتھ کچھ ایسے بھی تھی جنہوں نے اسے اپنی ہتک سمجھتے ہوئے ماننے سے انکار کر دیا اور اپنی ساری توانائی شعر کو اصلی ثابت کرنے صرف کی۔
وہ سب لوگ جنہوں نے ایک جملہ پڑھ کر ہذیان بکا تھا اب انہیں معذرت کر کے اپنے وقار کو بچا لینا چاہیے۔ میں شاید خوش قسمت ہوں کہ سب سے پہلے اس موضوع کو کھول کر بتانے کی کوشش کی کہ یہ جملہ فرضی نہیں حقیقی خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے۔
Tahira, ap ke laikh ham aurton ki dil ki awazen hen!
بوہت اچھا سلسلہ ہے اہل علم تو بوہت لوگ ہوتے ہیں مگر علم بانٹنا کی سعادت ہر کسی کے نصیب میں نہیں اسی طرح آگاہی بنتی رہیں خوش رہیں آباد رہیں
بہت خوب لکھا ۔ اور خوبصورتی سے اپنی بات کی وضاحت کی
اس تمام واقعہ سے جو ایک بات بہت واضح ہے، وہ یہ کہ ہمارا جلد باز معاشرہ آدھا ادھورا پڑھ کر پورا سمجھتا ہے اور غلط سمجھتا ہے، ایک لفظ سے پوری کہانی بنانا اس کے اطوار میں شامل ہے۔