اندلس اجنبی نہیں تھا - حصہ دوم
|

اندلس اجنبی نہیں تھا – حصہ دوم

تیس اگست تھی نزدیک تر اور ہمیں بس اتنا ہی علم تھا کہ تیس کو ہماری سواری باد بہاری نے چلنا ہے۔ اس سے آگے۔ کچھ خبر نہیں۔ وہ جو لکھا ہوتا ہے نا بسوں اور رکشے پر۔ جانے یا علی۔ تو بس وہی ورد ہمارے پاس بھی تھا جانے یا علی۔ پیکنگ کرنے میں ہم انتہائی پھوہڑ ہیں۔ سوٹ کیس نکلوا کر دس دن پہلے رکھ چھوڑتے ہیں پھر الماری کھولتے ہیں۔ کون سے کپڑے لے کر جاؤں؟ شلوار قمیض یا پینٹ شرٹ؟
گرم یا ٹھنڈے یا درمیانے؟ پوری آستین والے یا آدھی؟ کاٹن یا مکسڈ؟ کبھی نظر نیلے پہ جا ٹھہرتی ہے تو کبھی پیلے پر۔ نہیں بھئی نہیں اس میں تصویریں اچھی نہیں آتیں۔ تو پھر کیا یہ ہرا؟ نہیں یہ چبھتا ہے بہت آنکھوں کو۔ تو لیا کیوں تھا؟ اچھا یہ گلابی نہ رکھ لوں؟ افوہ بہت پہن چکی یہ والا۔ کوٹ کون سا رکھوں؟ گلابی پھولوں والا یا بلیک اینڈ وائٹ چیک والا؟ ہلکا سمر کوٹ یا پھر کچھ دبیز کہ اگر ٹھنڈ ہو جائے۔ مگر آج کل تو موسم گرما ہے۔
ارے بی بی یورپ کا کیا اعتبار؟ جوتے۔ جاگرز؟ یا لوفرز؟ یونہی الجھتے اپنے آپ سے باتیں کرتے ایک گھنٹہ گزر جاتا ہے اور تھک ہار کے ہم الماری بند کر دیتے ہیں۔ نہیں بھئی آج نہیں سمجھ آ رہا، کل کریں گے۔ اٹیچی بے چارہ ہماری طرف دیکھ دیکھ کر آہیں بھرتا ہے۔ صبر جواب دے جائے تو چیخ اٹھتا ہے مجھے کس جرم کی سزا میں بیچ کمرے کے لٹا رکھا ہے؟ ہر آنے جانے والا مجھے ٹھوکر مار کر گزرتا ہے۔ مانا کہ سفر میں تو میرا انجر پنجر ڈھیلا ہو گا ہی مگر ابھی تو رحم کرو کچھ مجھ پر۔
اب کیا کریں ہم؟ پیکنگ میں بڑے ہی نکمے ہیں ہم۔ ہمیشہ الم غلم بھر کر لے جاتے ہیں اور وہاں پہنچ کر جی چاہتا ہے کہ پاس گزرتے دریا میں اپنا بکسہ الٹ کر خالی کر دیں۔ مگر اس بار ہمیں ایک الٹی میٹم موصول ہوا۔ امی آپ فالتو سامان ساتھ لے کر نہیں جائیں گی۔ minimalist بنیں اور سفر میں مزہ کریں۔ اب ان کے سامنے تو ہماری بولتی بند ہو جاتی ہے سو معصوم بن کر ہلکی سی آواز میں کہا۔ بیٹا۔ کوشش تو کرتی ہوں نا۔ نہیں اس بار میں نے آپ کو سیدھا کرنے کا ایک اور طریقہ ڈھونڈا ہے۔
ہائے غضب خدا کا، پیٹ سے پیدا کی ہوئی ہمیں سیدھا کر رہی ہے۔ اس کو کہتے ہیں سیر کو سوا سیر۔ خیر بیٹا جی کچی گولیاں تو ہم بھی نہیں کھیلے۔ اپنی کوشش کر دیکھو۔ ہوں تو تمہاری ماں ہی نا۔ امی، آپ کو صرف تین شرٹس اور پینٹس لے کر جانی ہیں۔ تین؟ صرف تین؟ دس دن کا سفر اور تین جوڑے۔ ہماری پھنسی پھنسی آواز نکلی۔ لاحول ولا۔ ننگی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا؟ بیٹا جی کپڑے میلے ہو جاتے ہیں ہیں سفر میں۔ زبان سے یہ فقرہ نکلا مگر دل ہی دل میں۔
tahira-kazmi-andalusia
Dr. Tahira Kazmi in Andalusia
ہائے تصویریں۔ بار بار انہی کپڑوں میں؟ دیکھیے آج کل ہر جگہ واشنگ مشین ہوتی ہے بس رات کو دھونے کے لیے ڈال دیجیے گا۔ اچھا۔ ہم نے مری ہوئی آواز میں کہا۔ ایک جوتا اور ایک سمرکوٹ۔ بیٹا چھوڑو یہ بھی رہنے دو۔ پیدل ہی چلی جاتی ہوں۔ اب ملکہ جذبات مت بنیے۔ be realistic بس اتنا ہی سامان رکھیں، باقی دو نائٹ سوٹ، دوائیں اور کچھ آپ کی بیسکس۔ اب آپ سوچیے الماری کھول کر ہمارا کیا حال ہوا ہو گا جب ہم نے تین جوڑے چننے کی کوشش کی ہو گی؟
ایک کی طرف ہاتھ بڑھاتے تو دوسرے پہ نظر پڑ جاتی۔ دوسرے پہ ہاتھ رکھتے تو تیسرا آواز دیتا۔ دیکھو مجھے پہن کر تم بہت پیاری لگتی ہو۔ رہنے دو، تمہارا دور گزر گیا، تم اب آؤٹ ڈیٹڈ ہو، پہلے والا آنکھیں نکالتا۔ اوہ ہم نے نے اتنا عرصہ ساتھ دیا، ایک طرف سے آواز آتی۔ اور خدایا یہ سفر تو شروع ہونے سے پہلے ہی سفرنگ میں بدل گیا۔ ہم نے سر تھام لیا۔ آخر کار اینی مینی مینا مو نے مسئلہ حل کر دیا۔ ڈرتے لرزتے ایک چوتھی شرٹ بھی رکھ لی۔
کیا پتہ چلے گا کوتوال کو؟ اس شرٹ کے ساتھ کھنچی تصویر نہیں دکھائیں گے۔ فلائٹ تیس اگست کو تھی۔ انتیس کی رات کو ہمیں ای میل میں فرینکفرٹ سے آگے کی ٹکٹ اور رہائش کا انتظام بتایا گیا۔ پیکنگ کرتے ہوئے کچھ چیزیں ہم ساتھ ضرور رکھتے ہیں۔ اور وہ ہے ہماری چاہ۔ مطلب چائے کا سامان۔ راستے میں تو کافی سے کام نکل جاتا ہے لیکن چائے کی ہڑک زوروں پر پہنچ جائے گی جب منزل پر پہنچیں۔ خدا جانے کیا وقت ہو گا؟ مارکیٹ بند ہو گی یا کھلی؟
نزدیک ہو گی بھی کہ نہیں؟ اس سب مشکل سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ کچھ ٹی بیگز، دودھ اور کچھ بسکٹس کا انتظام پہلے سے رکھا جائے۔ ایک طویل سفر کے بعد کمرے میں داخل ہوتے ہی بستر پہ دراز ہو کر گرماگرم چائے۔ واہ زندگی پہ پیار آ جاتا ہے۔ سب کچھ تیار تھا لیکن ایک مشکل اور بھی تھی۔ آج کل ہم کچھ عرصے کے لیے مسقط سے دور ایک اور جگہ رہ رہے ہیں، ہسپتال سے متعلقہ کچھ معاملات کو درست کرنے کے لیے۔ چھٹی تو تیس کو شروع ہونی تھی اور انتیس کی دوپہر تک ہسپتال میں کام کرنا ہی تھا۔
خیر صبح گھر سے نکلے تو اپنا ننھا منا اٹیچی گاڑی میں رکھا، پاسپورٹ فون، کارڈز پرس میں اور ہسپتال جا پہنچے۔ دوپہر تک مریض نمٹائے اور پھر رکھا ایکسلیٹر پہ پاؤں۔ ایک سو بیس سے تیس کی رفتار پہ گاڑی چلائی اور جا پہنچے شام ساڑھے پانچ بجے مسقط۔ فلائٹ رات کے دو بجے تھی۔ جی چاہا کہ کچھ دیر آرام کیا جائے لیکن کچھ پرائیویٹ مریضوں کے پیغام آچکے تھے کہ وہ دکھانا چاہتے ہیں۔ بھئی اب مریضوں کے دل کیسے توڑیں جائیں؟
Dr-Tahira-Kazmi-in-Andalusia-02
Dr. Tahira Kazmi in Andalusia
تھکاوٹ تو بہت ہے لیکن چلو جہاز میں سو جائیں گے۔ مریض دیکھ کر فارغ ہوئے تو آٹھ بج رہے تھے۔ ہماری بہن جیسی دوست کھانے پہ ہمارا انتظار کر رہی تھیں، ہماری غیر موجودگی میں گاڑی کا قیام و طعام بھی انہی کے ذمے تھا۔ ویسے آپ خوب ہیں۔ کیسے بلا خوف و خطر چل پڑتی ہیں۔ کھانے کی میز پہ صائمہ نے ہنستے ہوئے کہا ارے مجھے وہ بلاتی ہیں۔ وہ کون؟ صائمہ نے چونک کر کہا۔ اجنبی زمینیں۔ ان پہ بسنے والے لوگ۔ بھئی ہمیں یہ باتیں سمجھ میں نہیں آتیں۔
صائمہ بولیں ایک بار میرے ساتھ چلو۔ سب جان جاؤ گی۔ میاں اور بچوں کا کیا کروں؟ جو ہم کرتے ہیں۔ دیکھیے آپ کے میاں اور بچے بہت گھوم چکے آپ کے ساتھ۔ ہاں یہ تو ہے۔ وہ بھی دن تھے جب ہم پانچ اکٹھے جایا کرتے تھے۔ آپ کو ائرپورٹ چھوڑنے چلوں؟ صائمہ نے پوچھا۔ نہیں بھئی، آج تو ہمارا اپنا بندوبست ہے۔ وہ کیا؟ بینک مسقط کی سروس ہے پک اینڈ ڈراپ ائرپورٹ کے لیے واہ۔ سفر کے آغاز سے ہی مزے۔ رات گیارہ بجے گھر سے نکلنا تھا۔
اس وقت تک گپ شپ لگائی، دو بار چائے پی۔ ٹھیک گیارہ بجے گھر کے باہر گاڑی آ موجود ہوئی۔ سمارٹ فون نے زندگی کیسے مٹھی میں بند کر دی ہے۔ لوکیشن بھیجو اور آنے والا تیر کی طرح پہنچ جاتا ہے۔ نہ ایڈریس بتانے کا جھنجھٹ نہ ڈھونڈنے کا۔ گلی نمبر بتیس جانا ہے۔ اکتیس بھی نظر آ رہی ہے اور تیس بھی۔ بتیس کہاں چلی گئی؟ ارے بھائی صاحب سنیے گا، شکور صاحب کا گھر معلوم ہے آپ کو۔ مکان نمبر چار سو بیس۔ اب لد گئے وہ زمانے جب گھر ڈھونڈنے میں پہروں لگتے تھے اور میزبان رستہ بتا بتا کر تھک جاتا۔
کونے میں جنرل سٹور نظر آیا آپ کو؟ نہیں۔ اچھا سکول کا بورڈ؟ وہ بھی نہیں۔ دیکھیے ایک تین منزلہ گھر ہے اس کی چھت پہ توتا بیٹھا ہے۔ نہیں اصلی نہیں بھئی، پتھر کا۔ دور سے نظر آتا ہے۔ وہ بھی نظر نہیں آ رہا۔ اچھا بتائیے سامنے کیا ہے؟ لنڈا بازار کی گلی۔ اچھا ہمارے گھر کے راستے میں تو کوئی ایسی گلی نہیں ہے۔ دیکھیے آپ نے چار نمبر سٹاپ سے مڑنا تھا۔ کیا کہا، چھ نمبر سے مڑے ہیں۔ اوہ۔ واپس آئیے۔ چار نمبر سٹاپ تک پہنچیے پہلے تو۔ راستوں کی اس بھول بھلیوں میں میزبان اور مہمان ہانپ ہانپ جاتے اور جب تک یہ کوہ طور سر ہوتا، دونوں ایک دوسرے کی شکل سے بیزار ہو چکے ہوتے۔ خیر ابھی تو ہم جا رہے ہیں ائرپورٹ۔ دیکھیے کیسے راستے ڈھونڈتے ہیں ہم؟

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *