Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
!ایاز امیر صاحب، بات اتنی سادہ نہیں
ایاز امیر نے اپنے کالم میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بہت سی باتیں لکھی ہیں۔ لوگ باگ ان کی اس جرات رندانہ کو سراہ رہے ہیں کہ انہوں نے بیٹے کی حرکتوں پہ پردہ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔
لیکن بات اتنی سادہ نہیں۔ قتل پہ افسوس اور اپنے صاحبزادے کے کرتوت لکھ کر وہ اپنی ذمہ داری سے علیحدہ نہیں ہو سکتے۔ وہ ذمہ داری جس کو نباہتے ہوئے بحیثیت باپ وہ سارہ سے ملے، نکاح کی تقریب میں دولہا کے ساتھ ساتھ رہے۔
!کامیو کی تشخیص اور سوئم کا پلاؤ
وبا سے اجل کو گلے لگانے والوں کے اعداد و شمار کہاں گنے جا سکتے ہیں۔ بے شمار لوگوں کو جدائی کے ناگ نے ڈس لیا اور اب بھی اس کی پھنکار تھمی نہیں۔ ہر دوسرے روز کسی نہ کسی کے رخصت ہونے کی خبر ملتی ہے، ایسے بے شمار احباب کے نوحے دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں جن کے ہاتھ سے اپنے پیاروں کا ہاتھ بھرے میلے میں چھوٹ گیا۔
فادرز ڈے اور اسامہ کائرہ
کائرہ صاحب کی باتیں بھی سنیں جو انہوں نے دکھ بٹانے والوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہیں، اور نہ جانے کس دل سے کہیں۔ شاید کہیں کوئی بھاری پتھر رکھا گیا تھا جو سامنے والوں کی آنکھ اور دل سے اوجھل تھا۔
تم ہزارہ لوگ ایک ہی دفعہ کیوں نہیں مر جاتے
ایک بات بتاؤں تمہیں، مذہب کے نام پہ کاٹنا اور کٹنا، کچھ نیا نہیں تاریخ میں۔ اختلاف رائے کی سزا صرف موت ہوتی ہے۔ یا تو ہمارے رستے چلو یا پھر مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ کربلا اسی کو تو کہتے ہیں اور کربلا دہراتے دہراتے تمہیں یہ سبق تو یاد ہونا چاہئے۔
کپتان کا بت ٹوٹ گیا
ہمیں وہ دن بھی یاد ہیں جب ہم کالج کی کلاسوں سے بھاگ کے کپتان کا میچ دیکھنے قذافی سٹیڈیم جاتے تھے۔ ہر لڑکی یوں بنتی سنورتی، جیسے کپتان کھیلنے نہیں، بر چننے آ رہا ہے۔ وہ جب باؤلنگ کروانے کے لیے لمبا سٹارٹ لیتا، لوگوں کے دل کی دھڑکن رک رک جاتی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا لوگ کرکٹ نہیں، کپتان دیکھنے جاتے تھے۔
کیوی – جس نے زچگی میں اوزار لگانے کو آسان بنایا
اس ویکیوم کپ کی ایجاد نے زچگی میں اوزار لگانے کو بہت آسان اور بہتر کر دیا۔ چونکہ پروفیسر ایلڈو ویکا کا تعلق نیوزی لینڈ سے تھا سو انہوں نے اس پلاسٹک سے بنے ہوئے انسٹرومنٹ کا نام کیوی رکھا۔ یہ وہی کیوی ہے جو کبھی ہمارے ہاں بوٹ پالش کی ڈبیا پر پایا جاتا تھا۔ شاید آج بھی پایا جاتا ہو۔