Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
منٹو اور نانگلی
شاید منٹو نے یہ کردار اس عورت کی کہانی سن کر تراشا ہو جس نے سماجی نظام کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے چھاتیوں کا سہارا لیا۔ نانگلی نام تھا اس عورت کا۔
اگست کی آسودہ دھوپ میں اوائل بہار کی چوتھائی صدی پرانی تصویر
مسافروں سے بھری ٹرین شام کے ملجگے اندھیرے میں دوڑتی جا رہی تھی، چھکا چھک، چھکا چھک
مرد، عورتیں، بچے، نوعمر لڑکے لڑکیاں، پھیری والے، گداگر، ٹکٹ چیکر کچھ منزل کے اشتیاق میں کھلے ہوئے، کچھ سفر کی تھکان کی اکتاہٹ لیے ہوئے، کچھ کتاب میں گم اور کچھ باہر دوڑتے ہوئے ہرے بھرے کھیتوں کی تراوٹ دل میں اتارتے ہوئے۔
آپ عیسائی کیوں نہیں ہو جاتے؟
حال ہی میں ایک وڈیو کلپ دیکھنے کوملا، جس میں ایک مسلمان نوجوان شدید کرائسس کی حالت میں بھی جیسنڈا کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کر رہا ہے جس کا اختتام اس آرزو پہ ہے کہ وہ جیسنڈا کو مسلمان ہونا دیکھنا چاہتا ہے۔
ماں کی زندگی بچائیں یا بچے کی؟
دیکھو اس میں وقت قیمتی ہے۔ ماں کے جسم کے اندر خطرناک بیماری ہے جس کا واحد حل یہی ہے کہ بچے کو اس کے جسم سے نکال لیا جائے۔ بچے کے نکلتے ہی ہیلپ سنڈروم اپنے آپ ہی ختم ہونا شروع ہو جائے گا اور ماں صحت یابی کی طرف گامزن ہو جائے گی۔ سو کرنا یہ ہے کہ حساب لگاؤ جلد از جلد کیسے بچہ ڈیلیور کروا سکتے ہو؟ اگر درد نہیں تو مصنوعی درد شروع کروانے میں بہت دیر لگ سکتی ہے۔ سو ماں کی زندگی بچانے کے لیے ضروری ہے کہ بچہ پیدا کروا لیا جائے ۔
!رحم کرنا ڈاکٹر۔ چھوٹے بچے ہیں میرے
ڈاکٹر پلیز آپریشن ٹھیک کرنا، اچھے سے۔ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔
ہائیں اب کیا کہیں؟ کیا اپنی تعریف کے پل باندھیں یا کچھ اور؟
ڈاکٹر، گھر میں چھوٹے چھوٹے بچے ہیں میرے۔
دیکھو بچے تو ہمارے بھی ہیں، اور ہمیں تو چھوٹے ہی لگتے ہیں باوجود ان کے احتجاج کے۔ اماں ہم گود والے بیبیز نہیں رہے اب۔
!اے زمانے والو، میں ہوں تاڑو ماڑو
ایسے لوگوں کی زبان کو کیوں نہ روکا جائے جو کسی بھی لڑکی کو دیکھ کر بے قابو ہوتے ہوئے اپنی فرسٹریشن انڈیل کر سمجھتے ہیں کہ بس ہم تو شغل کر رہے تھے۔ وہ ہنسی مذاق جو عورتوں سے زندگی کے ہر پل کا خراج لیتا ہے۔ بھانجی نے سنجیدگی سے تفصیلاً جواب دیا۔