بلڈپریشر سے ہونے والی پیچیدگیاں اور حاملہ خواتین!
| |

!بلڈپریشر سے ہونے والی پیچیدگیاں اور حاملہ خواتین

دنیا بھر میں بلڈ پریشر اور اسکی پیچیدگیوں کی وجہ سے حاملہ عورتیں کے مرنے کی شرح سر فہرست ہے ۔
بلڈپریشر سے ہونے والی پیچیدگیوں میں فالج ، گردے فیل ہونا ، نابینا پن ، ہارٹ اٹیک ، بچے کی پیٹ میں موت اور مرگی جیسے دورے شامل ہیں ۔ جب بلڈ پریشر کے ساتھ ان میں سے کوئی بھی پیچیدگی ہو تو اس صورت حال کو پری اکلیمسا Preeclampsia اور اکلیمپسیا Eclampsia کہا جاتا ہے جن کے بارے میں ہم تفصیلا لکھ چکے ہیں۔
ہم سوچتے ہیں کہ ایساکیا کیا جائے کہ ہر عورت چاہے وہ گاؤں میں رہتی ہو یا شہر میں ، بلڈپریشر اور ان پیچیدگیوں کے بارے میں نہ صرف جانتی ہو بلکہ اپنی جان کی حفاظت کر سکے ۔
سمجھ لیجیے کہ جب بھی حمل ہو ہر مہینے چیک اپ کروانا لازم ہے لیکن یہ چیک اپ بچے کے لیے نہیں ، ماں کے لیے ہونا چاہئے ۔
ہر مہینے حاملہ عورت کا بلڈ پریشر چیک ہو اور اس کا ریکارڈ رکھا جائے ۔ اگر بلڈ پریشر میں گڑ بڑ نظر آ جائے تو گھر پہ چیک کرنے والا آلہ خرید لینا چاہئیے۔ دو قسم کے آلے بازار میں موجود ہیں ۔ آٹومیٹک اور مینوئل ۔ آٹومیٹک تو ہے ہی آسان ، مینوئل سیکھنا بھی مشکل نہیں ۔ بس یہ یاد رکھیے کہ بلڈ پریشر کی دو ریڈنگز ہوتی ہیں ۔ سسٹولک systolic اور ڈایا سٹولک, Diastolic۔ سسٹولک کو عرف عام میں اوپر والا بلڈ پریشر کہتے ہیں اور ڈایاسٹولک کو نیچے والا۔
ایک عام سا فارمولا یاد کر لیجیے کہ نیچے والا بلڈ پریشر نوے سے اوپر نہیں جانا چاہئے اور اوپر والا ایک سو چالیس سے نیچے رہنا چاہیے ۔
دوسری بات جو بہت اہم ہے وہ پیشاب کا چیک اپ ہے ۔ حاملہ عورت کے پیشاب میں دو چیزیں دیکھی جاتی ہیں شوگر اور پروٹین ۔یہ ٹیسٹ ایک منٹ کے اندر ہوتا ہے اور اس میں ایک سٹرپ ڈال کر دیکھا جاتا ہے ۔ پیشاب میں پروٹین آئے یاشوگر ، سمجھیے کہ خطرے کی گھنٹی بج گئی ۔حاملہ عورت بلڈ پریشر اور اس کی پیچیدگیوں کی طرف سفر شروع کر چکی ہے ۔
ہمارے یہاں حاملہ عورت کے چیک اپس کو نامکمل سمجھا جاتا ہے اگر بچے کو الٹرا ساؤنڈ پہ نہ دیکھا جائے ۔ یہ خیال بالکل باطل ہے ۔ الٹرا ساؤنڈ نو ماہ میں تین یا چار بار سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے اگر حاملہ عورت کے پیٹ سے کوئی ابنارملیٹی ظاہر نہ ہو ۔
لیکن بلڈ پریشر اور پیشاب کا چیک اپ ؟ اس کو ہر گز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔
اگر بلڈ پریشر بڑھ رہا ہو تو اسے اپنی مصروفیت کے کھاتے میں مت ڈالیے ۔ اکثر اس طرح کی باتیں سننے کو ملتی ہیں
یہ اس لیے ہو گیا ہو گا کہ میں پچھلی رات سوئی نہیں ۔
یہ اس لیے ہو گیا ہو گا کہ کل شام کپڑے دھوئے تھے ۔
یہ اس لیے ہو گیا ہو گا کہ بازار سے چل کر واپس آئی ۔
ان تمام توجیہات کو سن کر ہم جواب میں یہ کہتے ہیں کہ اس طرح تو ڈاکٹرز کا بلڈ پریشر نارمل ہونا ہی نہیں چاہئے جو راتوں کو جاگتی بھی ہیں ، کام بھی کرتی ہیں اور بازار بھی گھومتی ہیں ۔
بلڈ پریشر جب بھی ہائی ہو اس کو ڈاؤن کرنے والی دوا کھانی چاہئے ۔ ایسی بہت سی دوائیں ہیں جو حاملہ عورت کے لیے خاص طور پہ بنائی گئی ہیں ان میں میتھائل ڈوپا اور لیبیٹولول سر فہرست ہیں ۔ ان دواؤں کی کم ازکم خوراک صبح دوپہر شام ایک گولی ہے جو بوقت ضرورت بڑھائی جاتی ہے ۔
بلڈ پریشر کی پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے دوائی کھانا تو ضروری ہے ہی لیکن خون کے ٹیسٹ بھی کرواتے رہنا چاہییں ۔ مقصد ایک ہی ہے کہ جب بھی کوئی پیچیدگی شروع ہونے لگے ، حمل ختم کر دیا جائے ۔ حمل ختم کرنے کے معنی یہ نہیں کہ بچہ مار دیا جائے بلکہ بچے کو پیدا کروا لیا جائے تاکہ ماں بچ جائے ۔ حمل ختم ہو جانے کے بعد زیادہ تر خواتین میں بلڈ پریشر نارمل ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔ جن میں نارمل نہ ہو ان میں دواؤں کا استعمال جاری رکھا جاتا ہے ۔
اگر ایسا موقع آ جائے کہ ماں کی جان بچانے کے لیے بچہ پیدا کروایا جانا ہو تب یہ سوچنا پڑتا ہے کہ کس طریقے سے ؟
کبھی کبھی صورت حال ایسی ہوتی ہے کہ بچے کو فورا پیٹ سے نکالنا ہی بہترین حل ہوتا ہے ۔ ایسے میں اگر ویجائنل ڈلیوری کا سوچیں تو درد زہ دواؤں سے شروع کرنے میں کافی وقت لگتا ہے اور اتنا وقت ماں کی زندگی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے ۔ ایسے لمحات میں سیزیرین کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ ایسے میں مریضہ کے لواحقین سمجھ نہیں پاتے کہ ڈاکٹر ایسا کیوں کر رہا ہے ؟ ہمارے تجربے میں اگر لواحقین کو صورت حال سمجھا دی جائے تو ان کے اعتراضات کافی حد تک کم ہو جاتے ہیں ۔
بچہ اگر پورے دنوں کا نہ ہو تو نرسری میں رکھا جاتا ہے ۔ بعض اوقات پری میچیور بچہ بچ نہیں پاتا لیکن ماں کی زندگی کے سامنے یہ قربانی دینی پڑتی ہے ۔
اگر حاملہ عورت کو اچانک چکر آنے لگیں ، سر میں درد رہنے لگے ، جی متلا نے لگے ، پاؤں سوج جائیں تب بھی فورا بلڈ پریشر چیک کروانا چاہیے ۔ یقین کیجیے جسم ہمیشہ خطرے کی گھنٹی بجاتا ہے تاکہ بروقت سد باب کیا جا سکے ۔
ہمارا پیغام ہے کہ حاملہ عورت ہر مہینے اپنا بلڈ پریشر چیک کروائے ۔ اس کو ایک نوٹ بک میں لکھے اور ہر بار اپنا پیشاب چیک کروا کر ڈاکٹر سے پوچھے کہ اس میں شوگر یا پروٹین تو نہیں ہے ؟
!جانیے اپنے جسم کو ، حفاظت کیجیے اس کی ! یہ زندگی ہے آپ کی
!یہی ہے گائنی فیمنزم

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *