Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
!جب آنول رحم سے چپک جائے
فکر والی باتیں دو ہیں۔ پہلی یہ کہ سروکس ڈھانپنے والی جگہ سے آنول پھٹ کر خون بہانا شروع کر سکتی ہے جیسے ایک بار پہلے ہو چکا۔ ہو سکتا ہے کہ اگلی بار خون اتنا زیادہ بہے کہ تم وقت پہ ہسپتال ہی نہ پہنچ سکو۔ اس لیے ضروری ہے کہ تم وارڈ میں رہو، اگر بلیڈنگ شروع ہو تو دس منٹ کے اندر تمہارا آپریشن کیا جا سکے۔
!سی ٹی جی گراف مدفن
سب سے زیادہ مشکل تب ہوتی جب گراف کہے کہ کچھ مشکل ہے بھی اور نہیں بھی۔ چوکنا رہنے کی ضرورت ہے بھئی۔ اس وقت بچے کے سر سے دو قطرے خون کے لے کر اس کا تجزیہ کیا جاتا کہ خون میں آکسیجن اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کتنی ہے؟ فیٹل سکیلپ سیمپلنگ نامی ٹیسٹ وہیں جا کر دیکھا اور دیکھ دیکھ کر سیکھ بھی لیا۔ بچے کا سر چاہے جتنی گہرائی میں بھی ہو وہاں تک ایک آلہ ڈال کر بچے کے سر پہ ایک بلیڈ سے چھوٹا سا کٹ لگا کر خون کے تین چار قطرے شیشے کی نالی میں بھرنا۔ پریکٹس تو چاہیے اس کے لیے لیکن کر ہی ڈالی۔
اگست کی آسودہ دھوپ میں اوائل بہار کی چوتھائی صدی پرانی تصویر
مسافروں سے بھری ٹرین شام کے ملجگے اندھیرے میں دوڑتی جا رہی تھی، چھکا چھک، چھکا چھک
مرد، عورتیں، بچے، نوعمر لڑکے لڑکیاں، پھیری والے، گداگر، ٹکٹ چیکر کچھ منزل کے اشتیاق میں کھلے ہوئے، کچھ سفر کی تھکان کی اکتاہٹ لیے ہوئے، کچھ کتاب میں گم اور کچھ باہر دوڑتے ہوئے ہرے بھرے کھیتوں کی تراوٹ دل میں اتارتے ہوئے۔
ماں کی زندگی بچائیں یا بچے کی؟
دیکھو اس میں وقت قیمتی ہے۔ ماں کے جسم کے اندر خطرناک بیماری ہے جس کا واحد حل یہی ہے کہ بچے کو اس کے جسم سے نکال لیا جائے۔ بچے کے نکلتے ہی ہیلپ سنڈروم اپنے آپ ہی ختم ہونا شروع ہو جائے گا اور ماں صحت یابی کی طرف گامزن ہو جائے گی۔ سو کرنا یہ ہے کہ حساب لگاؤ جلد از جلد کیسے بچہ ڈیلیور کروا سکتے ہو؟ اگر درد نہیں تو مصنوعی درد شروع کروانے میں بہت دیر لگ سکتی ہے۔ سو ماں کی زندگی بچانے کے لیے ضروری ہے کہ بچہ پیدا کروا لیا جائے ۔
!جب آنول راستے کا سانپ بن جائے
مریض کو سیدھا آپریشن تھیٹر شفٹ کروایا۔ جلدی سے میز پر ڈالا، بلڈ پریشر بہت نیچے تھا۔ انیستھیٹسٹ نے دونوں طرف او نیگیٹو بلڈ شروع کیا۔ پیٹ سے کپڑا ہٹا کر دیکھا، بچہ دانی تھیلا بنی بہت سی پٹیوں میں لپٹی ہوئی تھی لیکن سب خون میں بھیگ چکی تھیں۔ سب ایک ایک کر کے باہر نکالیں۔ بچے دانی کے نچلے حصے سے آنول نکالی تو جا چکی تھی لیکن وہاں سے خون کا اخراج ابھی بھی جاری تھا۔ کچھ ٹانکوں کے نشان بھی نظر آرہے تھے۔ مریض کی رنگت کاغذ کی طرح سفید، مانو خون کا ایک قطرہ تک نہیں۔
آپریشن کروانا ہے مگر کس سے؟
دو ہزار ایک کا راولپنڈی۔ ہماری اور شوہر کی پوسٹنگ گوجرانوالہ ہو چکی تھی۔ نشتر ہسپتال سے سپیشلائزیشن کی ٹریننگ ختم کرنے کے بعد اب ہمیں امتحان دینا تھا۔ احمد نگر چٹھہ کے ہیلتھ سینٹر پہ کام کرنے کے ساتھ ساتھ ہم پڑھائی میں بھی مصروف تھے۔ دوسرا بچہ بھی انہی دنوں پیدا کیا تھا۔ سپیشلائزیشن کے امتحان کے دو درجے ہوتے ہیں پہلا تحریری دوسرا زبانی۔ اگر تحریری پاس کر لیا جائے تو زبانی کا موقع ملتا ہے جس میں اصل مریض بلائے جاتے ہیں۔ مریض کا معائنہ ممتحن کی موجودگی میں کیا جاتا ہے اور پھر مریض کے متعلق سوال و جواب کیے جاتے ہیں۔