Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
!داڑھی کا ایک بال، بڑھیا اور سالگرہ
بچپن میں جب کوئی افسانہ یا کہانی ہم پڑھتے جس میں پچاس پچپن کی عورت کا ذکر ہوتا تو نقشہ کچھ یوں کھینچا جاتا، شکل سے گھاگ نظر آوے، حرکات میں شاطر، نقاہت اور عمر نے ہلنے جلنے کے قابل نہیں چھوڑا، تخت پہ بیٹھی حکم چلاتی اور داؤ پیچ کھیل کر ہر کسی کا دم ناک میں کرتی ہوئی بڑھیا۔
زخم زخم عورتیں مسکراتی ہیں ۔۔۔ نیل کرائیاں نیلکاں
صاحباں نے عشق کے مجازی زخموں کا دکھ بیان کیا تھا۔ محبت کرنے والی عورت نے یہ تو نہیں سوچا تھا کہ اکیسویں صدی میں بھی محبت اسے ایسے نشان دے گی جنہیں وہ زمانے کے سامنے رکھے تو رسوا ہو اور اپنے اندر چھپا لے تو مر جائے۔ یہ کیسی محبت ہے کہ نہ نین وکیل بنتے ہیں اور نہ دل سے اپیل کی جا سکتی ہے۔
!ڈاکٹر بیٹی کی کنپٹی پر گولی
مگر سب بچیاں تو اتنی خوش قسمت نہیں ہوتیں ، میانوالی کی لیڈی ڈاکٹر سدرہ بھی انہی میں سے ایک تھیں ۔ باپ کا اصرار تھا کہ شادی ان پڑھ کزن سے ہو گی ۔ جبکہ ڈاکٹر سدرہ کا جواب نفی میں تھا۔ ڈاکٹر سدرہ گھر بھی چھوڑنا نہیں چاہتی تھیں تاکہ کوئی ان کے کردار پہ انگلی نہ اٹھا سکے ۔ ہمسایوں کے مطابق اسے کئی بار تشدد کا نشانہ بنایا جا چکا تھا مگر بیٹی نے والدین کے خلاف کسی قسم کا ایکشن نہیں لیا ۔
زندگی تماشا بنی، دنیا دا ہاسہ بنی
ابا کے کمرے میں پڑی میز پہ پڑا ریڈیو سارا دن بجتا رہتا۔ اماں کھانا بنا رہی ہیں، ابا نماز پڑھ رہے ہیں، چڑیاں…
نہ جانے، کوئی نہ جانے؟
ساتھ کھڑی نرس اگر پشپا ہو تو راجیش کھنہ کی یاد تو آئے گی نا۔ جب وہ اپنی ہیروئن کو انتہائی رومانوی انداز اور گہری آواز میں مخاطب کرتے ہوئے کہتا پشپا، تو ہال میں بیٹھی فلم دیکھنے والی سب پشپاؤں کا دل تو دھڑکنا بھول جاتا ہو گانا۔ یہی سوچ کر دل لگی پر من اتر آتا ہے، آواز کو گہری بناتے ہوئے کہتی ہوں، پشپا ذرا قینچی تو پکڑانا جس سے وہ بے اختیار شرما جاتی ہے، جانتے ہوئے بھی کہ وہ کہیں نہیں ہے یہ اس کی آواز کی پرچھائیں ہے۔
اگرصفیہ اور زبیدہ، رینا اور روینا بن جائیں
عورت ہوں، گائناکولوجسٹ ہوں پر یہ معلوم نہیں کہ بارہ اور چودہ سال جو ابھی بچپن اور لڑکپن کا دور ہے، جو گڑیوں سے کھیلنے کی لا ابالی سی عمر ہے جہاں معمولی باتوں کی سمجھ نہیں ہوتی، جہاں ابھی اپنی پہچان نہیں ہوتی، جہاں زندگی کیا ہے، کیوں ہے، کیسے ہے، کا فہم نہیں ہوتا۔ بلوغت کے مسائل، جسمانی تبدیلوں اور بدلتے ہارمونز کا اندازہ نہیں ہوتا۔ وہاں کیسے، کس طرح ان بچیوں نے شعور کی منزلیں طے کر لیں کہ گھر سے نکلیں، مذہب کے ساتھ ساتھ سب کچھ چھوڑنے کا فیصلہ کیا، شادی رچائی اور اب مسرور و شاداں بیٹھی ہیں۔