Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
!الفاظ، زبان، اعضا، شرم و حیا، فحاشی اور غیرت و مردانگی
ان اعضا کے ناموں کا استعمال جو کچھ کے لیے شہوت انگیز، کچھ کے لیے منہ سے نہ صرف گرتی رال بلکہ ہر جسم کو محض جنسی آلہ سمجھ کر ”گل افشانی“ کا سبب بھی بن سکتا ہے لیکن اگر مذکورہ حال میں ان اعضا کی ایک جھلک انہیں دکھا دی جائے تو؟ کیا ان مٹی ہوتے جسموں سے بھی وہ اسی طرح حظ اٹھائیں گے؟
پری اکلیمپسیا – حاملہ خواتین کے لیے ڈراؤنا خواب
لیکن بات اتنی بھی آسان نہیں۔ پری اکلیمپسیا میں کچھ ایسے مادے جسم میں خارج ہوتے ہیں جو حاملہ عورت کے تمام اعضا کو متاثر کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر دماغ کو برین ہیمرج کا خطرہ ہوتا ہے تو آنکھ کی بینائی بھی جا سکتی ہے۔ اسی طرح پھیپھڑوں میں پانی بھر جانا، ہارٹ فیل ہوجانا، جگر میں انزائمز بہت زیادہ بڑھ جانا گردوں کا فیل ہوجانا، خون میں پلیٹلیٹس کم ہوجانا، بچے کی نشوونما کم ہونا اور پیٹ میں ہی مر جانا یا آنول کا بچے کی پیدائش سے پہلے ہی پھٹ جانا اور خون خارج ہونے جیسے خطرات بھی لاحق رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ مزید پیچیدگیوں میں ہیلپ سنڈروم اور مرگی جیسے دورے (Eclampsia) بھی شامل ہوسکتے ہیں۔
ادب میں خاتون قلمکار کی ویلڈٹی ، اور بھگوڑا شوہر، اشفاق احمد اور بانو قدسیائی سوچ کی روشنی میں
آفاقی ادب یہ سجھاتا ہے کہ مرد و عورت کے بیچ صنفی فرق کم عقلوں کا ذہنی فتور اور دماغی خلل ہے۔ لیکن اس وقت کیا کیجیے کہ ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا سمجھنے والے بونے ادیبوں کی رائے میں یہی بنیادی فرق بن جائے جس پہ مرد و عورت کو میزان پہ تولا جانے لگے علیحدہ علیحدہ۔ معاشرے کا اصرار ہے ایسی باتیں کتابوں میں رہنے دو، زندگی کا حصہ نہ بناؤ۔
!اپنے جسم کے متعلق جانیے اور ڈاکٹر کو حیران کر دیجیے
ایسے بہت سے واقعات ہم لکھتے ہیں جن میں ڈاکٹرز کی محنت، لگن اور کوشش قارئین کے سامنے لائی جاتی ہے۔ لیکن تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہوتا ہے اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ وہ بھی دکھایا جائے۔ ایسی ہی ایک صورتحال کا سامنا تھا ہمیں جب ہم نے اپنی ٹیم ممبر کا فون رات کے دو بجے سنا۔
!زچگی کی دوسری سٹیج۔ دھوکا ہوا
مریضہ کا پہلا حمل، دوسرے مہینے سے ہسپتال آنا شروع کیا۔ ہر مہینے باقاعدگی سے چیک کروایا۔ کہیں کچھ بھی غلط نہیں تھا۔ ڈاکٹر تسلی دیتے رہے۔ نو ماہ گزرے۔ تاریخ کے قریب پہنچ کر درد زہ شروع ہوئے۔ وقت ضائع نہیں کیا، فوراً ہسپتال پہنچے۔ سب کو بہت تشویش تھی لیکن ڈاکٹر نے تسلی دی کہ سب ٹھیک ہے۔ درد برداشت کی آٹھ گھنٹے تک، آخر بچے دانی کا منہ پورا کھل گیا۔ پھر نرس نے بتایا کہ زور لگاؤ۔ ہر درد کے ساتھ پورا زور لگایا، ہلکان ہو گئی۔ تین گھنٹے گزر گئے۔ ڈاکٹر نے کہا کہ بچے کو اوزار لگا کر نکالنا پڑے گا۔ اوزار لگا کر کھینچا، ایک بار، دو بار۔ کچھ بھی نہیں ہوا اور آخرکار آپریشن تھیٹر لے جا کر سیزیرین کر دیا۔