Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
!ہم بھی، تم بھی
کیا کہیں اسے؟ یار غار؟ نصف صدی بعد ملنے والی جڑواں؟ وقت ہم دونوں کے ساتھ ساتھ چلتا رہا مگر رہے جدا جدا، ہم…
!جوں کی رفتار سے رینگتی ہوئی جوئیں
سکول کے ہر گروپ میں ہر دل عزیز، محلے کے سب گھروں میں دوستی، غیر نصابی سرگرمیوں کے لیے دوسرے سکولوں میں آمدورفت، وی سی آر پہ فلم دیکھنے کے شائقین کے درمیان ہم موجود، رشتے داروں کے گھر اماں کے ساتھ جانے کو ہم تیار، محرم کی مجلسوں میں ہم آگے آگے، نیاز اور معجزے پڑھنے کی محفلوں کے متحرک ممبر۔ سو آپ ہی بتائیے جب اتنے بے شمار سروں سے ہر وقت کا میل ہو گا تو جوں چڑھ ہی جائے گی نا سر میں۔ آخر محترمہ جوں کو بھی شوق ہو سکتا ہے نت نئی جگہیں پھرنے کا اور اگر سیر گھنے جنگلات کی ہو تو کیا ہی کہنے!
آپ کے گھر کھسرا پیدا کیوں نہیں ہوا
ہم نے اپنی امی سے پوچھنے کی کوشش کی کہ یہ کون ہیں، امی نے جواب دینے کی بجائے فورا کوئی اور بات کر کے ہمارا دھیان بٹانا چاہا، ایک آدھ دفعہ کے لئے تو ٹھیک تھا اور ہم بہل بھی گئے مگر ان سوالوں کے جواب ہمیں کبھی نہ ملے، ہماری پر تجسس طبیعت نے جب ہار نہ مانی تو امی جھنجلا کے بولتیں ”چپ ہو جاؤ، دماغ نہ کھاؤ“ بہر حال اس ساری کہانی میں ہمیں ایک نام ازبر ہو چکا تھا جو ہم نے کسی دکاندار کو کہتے سنا تھا اور وہ تھا کھسرے
نہ جانے، کوئی نہ جانے؟
ساتھ کھڑی نرس اگر پشپا ہو تو راجیش کھنہ کی یاد تو آئے گی نا۔ جب وہ اپنی ہیروئن کو انتہائی رومانوی انداز اور گہری آواز میں مخاطب کرتے ہوئے کہتا پشپا، تو ہال میں بیٹھی فلم دیکھنے والی سب پشپاؤں کا دل تو دھڑکنا بھول جاتا ہو گانا۔ یہی سوچ کر دل لگی پر من اتر آتا ہے، آواز کو گہری بناتے ہوئے کہتی ہوں، پشپا ذرا قینچی تو پکڑانا جس سے وہ بے اختیار شرما جاتی ہے، جانتے ہوئے بھی کہ وہ کہیں نہیں ہے یہ اس کی آواز کی پرچھائیں ہے۔
محترمہ زیبا شہزاد کی مرد نوازی
دل باغ باغ ہے اور ایک فخر کا احساس بھی ہے کہ ہم گنہگاروں کے قبیلے میں کوئی تو پوتر نکلا
کسی نے تو ہم مادر پدر آزاد عورتوں کا پردہ چاک کر کے معاشرے کے مظلوموں کو ہماری اصلیت دکھائی
پانچ سو یا پانچ سو ایک؟
ویسے تو جو بچہ شہ بالا بنا بیٹھا ہوتا اسے بھی سب دو چار روپے تھما رہے ہوتے اور شہ بالا صاحب کی اکڑ پورے عروج پہ ہوتی کہ ساتھ کے بچوں سے آنکھیں ہی نہ ملاتے۔ ایسے موقعوں پہ ہمیں رسم و رواج پہ غصہ بھی آتا اور شکوہ بھی۔ یہ کیا بات ہوئی بھلا؟ لڑکا ہی کیوں بنے شہ بالا؟ لڑکا ہی کیوں بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے؟ مطلب دولہا دلہن کا ساتھ اور ڈھیر سے روپے۔ آخر شہ بالی کیوں نہیں؟ جائیں ہم نہیں بولتے۔