Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
مونا لیزا کی پراسرار مسکراہٹ اور لیونارڈو ڈاونچی
لیونارڈو نے مصوری کی اور کیا خوب کی۔ وہ اپنے آپ کو بام کمال تک پہنچانے کے لئے انسانی جسم کی تفصیلات جاننے کے لئے میڈیکل سکول جا پہنچا جہاں مردہ جسموں کی چیر پھاڑ کر کے اناٹومی کا علم سیکھا جاتا تھا۔ کون سی ہڈی پہ کون سا مسل لگا ہے، اس کا پتہ لیونارڈو کی ڈرائنگ سے بھری ڈائریوں سے چلتا ہے جس میں رحم مادر کے اندر بڑھنے والے بچے تک کو دکھایا گیا ہے۔ بعد میں آنے والی میڈیکل سائنس نے ان ڈرائینگز سے خوب استفاده کیا۔
!پروفیسر شیر علی – بہت سستے چھوٹ گئے آپ
نہ جانے کس نے آپ پر رحم کھایا ہے اور محض کاغذ کے ٹکڑے پہ ایک دستخط کر کے آپ کی جاں بخشی ہو گئی۔ کیوں نہ آپ کو مبارکباد دوں اور خدا کا شکر ادا کرنے کے لیے کہوں اور ہدیے کے طور پر اپنے آنسو بھی پیش کروں۔
!پیارا دل دل دل اور اردو کانفرنس
جھوم جھوم کے، اچھل اچھل کے گاتے رہے۔ ہر وقت خیال رہا کہ حسن جہانگیر سے کم نہ لگیں۔ آخر کب تک؟ گا گا کر جب تھک گئے تو سوچا، اب کوئی غمگین گیت۔ مل گیا فوراً۔ لیجیے جناب اب آہیں بھر بھر کے، گہری سانسیں۔ میرے دل کی ہے آواز کہ بچھڑا یار ملے گا۔
بچے کے دل کی دھڑکن یا موسیقی کا انترا مکھڑا
ایسا لگتا ہر بچہ رونالڈو یا میسی کا شاگرد ہے، اچھی بھلی سی ٹی جی میں ایسی کک لگاتا کہ دل اچھل کر حلق میں آ جاتا۔ مڈوائف دوڑتی، ڈاکٹر کو پیجر پہ بلاتی، ڈاکٹر بھاگی آتی، آ کر ویجائنا میں ایک بھونپو نما آلہ ڈالتی، بچے کے سر سے دو قطرے خون نکالتی، مشین میں ڈالتی اور مشین دو منٹ بعد بتاتی کہ بچہ خطرے میں ہے یا نہیں؟ اس مشین کی بابت کتابوں میں ہی پڑھا تھا، تبوک میں زیارت ہو گئی۔ خیر جناب یہی کچھ دیکھتے عید آ گئی، دعوتیں کھاتے جلدی سے گزر گئی اور لیجیے رو برو ہونے کا دن آ پہنچا۔
آزادی تو آج کے دن مل گئی تھی۔۔۔ رات کا جنگل اس کے بعد پھیلا
خواہشوں کی ایک طویل جنگ جس کا آغاز اس خطے سے ہوا، جہاں کے لوگ اس جدوجہد میں ہمارے ہمرکاب ہوئے، قربانیاں پیش کرنے میں پیچھے نہ رہے اور جب تھکے ہارے مسافروں نے منزل مراد پا لی، خوشیوں کی سرزمین ٹھکانہ بن گئی تو برسوں ساتھ چلنے والے ساتھی اجنبی بن کے رہ حیات میں ہم سے بچھڑ گئے اور وطن عزیز کے ٹکڑے کر کے ایک علیحدہ دیس بسا بیٹھے۔
تم ہزارہ لوگ ایک ہی دفعہ کیوں نہیں مر جاتے
ایک بات بتاؤں تمہیں، مذہب کے نام پہ کاٹنا اور کٹنا، کچھ نیا نہیں تاریخ میں۔ اختلاف رائے کی سزا صرف موت ہوتی ہے۔ یا تو ہمارے رستے چلو یا پھر مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔ کربلا اسی کو تو کہتے ہیں اور کربلا دہراتے دہراتے تمہیں یہ سبق تو یاد ہونا چاہئے۔