!جب نارمل ڈلیوری میں مقعد پھٹ جاتا ہے
|

!جب نارمل ڈلیوری میں مقعد پھٹ جاتا ہے

سلطان سے ہم پہلی بار دو ہزار نو میں ملے اور ملتے ہی ان کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔ یہ دو ہزار نو کا ابو ظہبی تھا۔ گرینڈ پیلس میں رائل کالج انگلینڈ کے زیر اہتمام گائنی کی کانفرنس تھی اور دنیا کے ہر کونے سے بھانت بھانت کے ڈاکٹر جمع تھے۔ انگلینڈ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر سلطان کا نام ہم نے سن رکھا تھا لیکن اس دن انہیں دیکھنے اور سننے کا موقع ملا۔
سن کر کانوں سے دھواں نکلنے لگا، اوہ خدایا جن باتوں کی ابھی تک سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ یک دم مجسم ہو کر سامنے کھڑی ہو گئیں۔ ویجائنل ڈلیوری میں مقعد کو پہنچنے والے نقصان پہ سلطان کا پہلا ریسرچ پیپر 1993 میں چھپا اور ہماری ویجائنل ڈلیوری بھی اسی برس ہوئی۔ ہائے ٹوٹی کہاں کمند۔ سلطان نے پچھلے تیس برس میں مقعد اور ویجائنل ڈلیوری پر سو سے اوپر ریسرچ پیپرز لکھ ڈالے ہیں، کتابیں چھپ چکی ہے، سی ڈی دستیاب ہے، دنیا بھر سے ٹرینیز ان کی ورکشاپ اٹینڈ کرتے ہیں غرض سلطان مقعد کو پہنچنے والے نقصان پہ بات کرنے کی اتھارٹی ہیں۔
سلطان نے ویجائنا اور مقعد کو پہنچنے والے نقصان کی درجہ بندی کچھ یوں کی ; فرسٹ ڈگری ؛ جب جلد اور ویجائنا کی پہلی پرت پھٹ جائے۔ سیکنڈ ڈگری ؛ جب پرینیل مسلز پھٹ جائیں۔ تھرڈ ڈگری ؛ جب پرینیل مسلز + مقعد کے پیچ پھٹ جائیں۔ تھرڈ ڈگری اے ؛ جب بیرونی پیچ کا آدھا حصہ پھٹ جائے۔ تھرڈ ڈگری بی ؛ جب بیرونی پیچ کا آدھے سے زیادہ حصہ پھٹ جائے۔ تھرڈ ڈگری سی ؛ جب بیرونی اور اندرونی پیچ، دونوں پھٹ جائیں۔ چوتھی ڈگری ؛ جب پرینیل مسلز، اندرونی اور بیرونی پیچ اور مقعد کی دیوار پھٹ جائے۔
بٹن ہول ؛ جب مقعد کے اندر بٹن جیسا سوراخ بن جائے۔ اگر یہ سیا نہ جائے تو فسٹولا بن جاتا ہے۔ سلطان کے مطابق ہر دس میں سے نو عورتوں کو ویجائنل ڈلیوری کے بعد پرئینیل نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ویجائنا کے اردگرد کا علاقہ پرینیم perineum کہلاتا ہے۔ اس حصے میں تین اہم دروازے ہیں جو پیشاب، پاخانے اور ماہواری کا کنٹرول کرتے ہیں۔ ہر ویجائنل ڈلیوری پرینیم کو کچھ نہ کچھ نقصان ضرور پہنچاتی ہے اور چھ پرسنٹ عورتوں میں مقعد تباہ ہو جاتا ہے ۔
مقعد تباہ ہونے کے رسک فیکٹرز میں ایشیائی قومیت، پہلا بچہ، بچے کا وزن چار کلو یا اس سے زیادہ ہونا، طویل درد زہ، بچے کی غلط پوزیشن، اوزاری ڈلیوری، ڈلیوری کے دوران پرینیم کی غلط سپورٹ، بچے کے کندھوں کا ویجائنا میں پھنس جانا، غیر تربیت یافتہ ہاتھوں میں ڈلیوری ہونا۔ ہمیں علم ہو چکا تھا کہ ہماری ڈلیوری میں ہمیں فورتھ ڈگری نقصان ہوا تھا اور جو درست طریقے سے سیا نہیں گیا تھا۔ کیوں؟ ہم پہلے بھی بتا چکے ہیں کہ ان پیچوں کی شناخت اور سلائی بہت کم لوگ جانتے ہیں۔
چونکہ ہمیں ڈلیوری کے بعد بے ہوشی نہیں دی گئی تھی اور لیبر روم میں ہی ٹانکے لگائے گئے تھے سو ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب تھے کہ اندرونی پیچ سلنے سے رہ گیا تھا۔ رائل کالج انگلینڈ کا کہنا ہے کہ اگر کبھی شائبہ ہو کہ نقصان سیکنڈ ڈگری ہے یا تھرڈ ڈگری؟ اسے سیکنڈ ڈگری کی بجائے تھرڈ ڈگری میں رکھنا بہتر ہے تاکہ شک کا فائدہ مریض کو پہنچے اور اسے پاخانے اور ہوا کا اخراج کا مسئلہ پیش نہ آئے۔ جی تو ہم قصہ سنا رہے تھے سلطان سے ملنے کا۔
سلطان نے جب لیکچر کے دوران مختلف تصویریں دکھا کر صورت حال واضح کی تب ہم رہ نہ سکے اور بھرے ہال میں اٹھ کر سوال پوچھ لیا۔ سلطان نے ہمارے کنفیوژن کو تو دور کیا ہی مگر کئی ملکوں سے آنے والے مندوبین دوستوں سے بھی اس بہانے ملاقات ہو گئی جنہوں نے مائیک پہ آواز سن کر جان لیا کہ ہم ہال میں موجود ہیں۔ اس ملاقات کے بعد ہم سلطان کے مرید بن گئے اور ہم نے ان کی کتاب اور ریسرچ پیپرز کو گھوٹ کر پی لیا۔ بعد کے برسوں میں ہم نے وہ گھوٹا ہوا سبق ہزاروں کو پڑھایا اور سکھایا۔
مقعد کا پھٹ جانا اور اس کے نتیجے میں ہونے والا نقصان آج بھی ہمارا پسندیدہ موضوع ہے اور ہم اس پہ گھنٹوں بات کر سکتے ہیں۔ یہاں یہ جان لیجیے کہ اگر یہ ٹوٹ پھوٹ ڈلیوری کے وقت ہو تو اس کی سلائی ایک ہوشیار گائناکالوجسٹ کے ہاتھوں ہو سکتی ہے اور اسے پرائمری رپیئر primary repair کہتے ہیں۔ مگر برسوں پرانی ٹوٹ پھوٹ جس سے پاخانے اور ہوا پہ کنٹرول بھی ختم ہو چکا ہو، گائناکالوجسٹ کے بس کی بات نہیں رہتی۔ اسے سیکنڈری ریپئر secondary repair کہتے ہیں اور یہ اینڈو اینل الٹراساؤنڈ، ایم آر آئی اور کولو ریکٹل سرجن کی مدد کے بغیر نہیں کی جا سکتی۔
اگر کوئی کرنے کی کوشش کرے گا تو بات بننے کی بجائے مزید بگڑے گی کہ برسوں کا ہوا نقصان رفو کرنا خالہ جی کا گھر نہیں۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ اس سہولت تک عام عورت کا پہنچنا بہت مشکل۔ جیب بھاری ہونی چاہیے اور کسی بڑے شہر کا بہت بڑا ہسپتال ہی اس نازک صورت حال سے نمٹ سکتا ہے۔ کراچی کے پروفیسر شیر شاہ سید فسٹولا اور مقعد کے آپریشنز میں بہت اچھی شہرت رکھتے ہیں۔ سلطان کی سکھلائی کے بعد ہمارے ساتھ جو ہوا، وہ سناتے چلیں۔
ہم نے بتایا نا کہ زیادہ تر ڈاکٹرز کو اندرونی اور بیرونی پیچوں کی شناخت نہیں ہوتی اور جب شناخت نہیں تو سلائی کیسی؟ ہم ایک بہت بڑے ہسپتال میں اپوائنٹ ہوئے۔ فورتھ ڈگری کے لیے ہمیں آپریشن تھیٹر میں بلایا گیا۔ جب ہم نے کرنا شروع کیا تو ایک سینئیر ساتھی نے ہاتھ پکڑ لیا کہ ایسے نہیں ایسے۔ ہم نے کہا کہ جی نہیں ایسے نہیں، ویسے۔ خوب بحث ہوئی۔ ہم نے چیلنج کیا کہ آپریشن کے بعد سلطان کے ریسرچ آرٹیکلز اور کتاب پڑھ کر آئیے جسے مان کر رائل کالج انگلینڈ گائیڈ لائن بھی بنا چکا ہے۔
یہ بتانا تو فضول ہی ہو گا کہ چیلنج میں جیت کس کی ہوئی؟ اس کے بعد ہم نے بے شمار ڈاکٹرز کو اپنا سیکھا ہوا سکھایا بلکہ ایک ریسرچ شروع کی جن میں ان خواتین کو بلایا گیا جن کی پرائمری ریپئر پچھلے تین برس میں ہوئی تھی۔ اور نتیجہ وہی تھا، پاخانے اور ہوا پہ یا تو بہت کمزور کنٹرول تھا یا تھا ہی نہیں۔ خواتین پاخانے کی لیکج کے لیے ہر وقت پیڈ رکھ کر گزارہ کر رہی تھیں۔ کیا کوئی مرد اندازہ لگا سکتا ہے کہ کیسی زندگی ہو گی وہ؟ ہمارا علاج بھی ہوا۔ وہ کس نے کیا، وہ کہانی آئندہ۔

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *