Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
سفر کی مشکلات اور سپین کا ویزا
چچا سام نہیں، چچا لفتھانسا! چچا لفتھانسا کا بس نہیں چلتا تھا کہ بڑھیا کو کچا چبا جائیں۔ بھئی حد ہوتی ہے۔ دن مہینے گزرتے چلے جا رہے ہیں اور بڑی بی کے مزاج ہی نہیں ملتے کہ معاملہ ختم کریں۔ چچا کی بڑبڑاہٹ ہم تک پہنچ رہی تھی ان خطوں کے ذریعے جو ہر دوسرے دن کمپیوٹر کے لیٹر بکس میں پائے جاتے تھے۔ جب کسی بھی طرح ہم نے کان نہ دھرا تو وارننگ کا خط آ گیا کہ بس بی بی بس۔ اب ہم کھاتہ بند کیے دے رہے ہیں، تم آرام سے گھر بیٹھو!
!سیلاب زدہ عورتوں کی گونگی، بہری، اندھی اور غریب ماہواری
موئی ماہواری تو نہیں سمجھتی نا کہ اسے ایسی عورت پر رحم کھانا ہے جس کے لیے پیٹ کی بھوک مٹانا ہی زندگی ہے۔ اگر اسے سمجھ ہوتی تو شاید کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہتی، ان غریبوں کی زندگی کو مزید عذاب میں مبتلا کیوں کروں، 7 دن کیا بہنا، ایک دن ہی کافی اور وہ بھی چند قطرے ثبوت کے لیے کہ ہاں بھئی عورت کا نظام چالو ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ ماہواری اندھی، گونگی اور بہری ہے۔
ویجائنا یا پتھر کی دیوار؟ کیا کریں؟
نوجوان جوڑا کلینک میں داخل ہوتا ہے۔ نئے شادی شدہ نظر آتے ہیں لیکن دونوں کا چہرہ بجھا بجھا سا۔ ہم سامنے بٹھا کر ادھر ادھر کی بات کرنے کے بعد آنے کا مقصد پوچھتے ہیں۔ دونوں کچھ دیر خاموش رہتے ہیں۔ آخر شوہر ہمت کرتا ہے۔ وہ ڈاکٹر صاحب، بہت پرابلم ہے۔ یہ۔ ۔ ۔ یہ۔ ۔ ۔ جی، جی کہیے؟ جی، اصل میں ہماری شادی کو ڈیڑھ مہینہ ہوا ہے لیکن ابھی تک ہم کچھ۔ میرا مطلب ہے، ازدواجی تعلق۔
کیوی – جس نے زچگی میں اوزار لگانے کو آسان بنایا
اس ویکیوم کپ کی ایجاد نے زچگی میں اوزار لگانے کو بہت آسان اور بہتر کر دیا۔ چونکہ پروفیسر ایلڈو ویکا کا تعلق نیوزی لینڈ سے تھا سو انہوں نے اس پلاسٹک سے بنے ہوئے انسٹرومنٹ کا نام کیوی رکھا۔ یہ وہی کیوی ہے جو کبھی ہمارے ہاں بوٹ پالش کی ڈبیا پر پایا جاتا تھا۔ شاید آج بھی پایا جاتا ہو۔
فسٹولا کیوں اور کیسے بنتا ہے؟
خواتین میں فسٹولا بننے کی سب سے بڑی وجہ پیٹ میں موجود بچے کا سر ہے۔ چھوٹے فٹبال جیسی گول ہڈی جسے بچے دانی، مثانے اور مقعد کے درمیان سفر کرتے ہوئے دنیا میں جنم لینا ہے۔
اکلیمپسیا جو حاملہ عورت کو موت کے منہ میں بھی لے جاسکتا ہے
یہ گنگارام اسپتال کا لیبر روم تھا۔ ہم فائنل ائر میں پڑھتے تھے اور گائنی ڈیوٹی پر معمور تھے۔ ہمارے ساتھ پڑھنے والی زیادہ تر لڑکیوں کو نہ تو گاؤں کی زندگی کا علم تھا اور نہ ہی گاؤں کے آس پاس بنے قصبات کی مشکلات کا اندازہ تھا۔ اتفاق سے ہم گاؤں اور قصبات کی حالت سے نہ صرف واقف تھے بلکہ شاید ان سب مشکلات کو سمجھتے بھی تھے۔ امی ابا کا گاؤں سے تعلق رکھنا اور گاؤں والوں کا علاج کے لیے شہر کے اسپتال پہنچنا حافظے میں محفوظ تھا۔