Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
فرشتہ ہو یا زینب – یہ سب تمہاری حاکمیت کا تاوان ہے
جب ہر طرف تعلیم دی جائے کہ اللہ کی طرف سے مرد برتر ہے اور اس کی خدمت کے لیے ایک بےچاری مخلوق پیدا کی گئی ہے جس کو مرد جب چاہے، جہاں چاہے روند سکتا ہے، مسل کے پتی پتی کر سکتا ہے، عمر، رنگ روپ کی کوئی قید نہیں
الزائمر کی المناک بیماری – جب جسم موجود اور تعلق منقطع ہو جاتا ہے
الزائمر دماغ کے ان حصوں کو سکیڑ کے تباہ کر دیتا ہے جو اپنے پیاروں کو پہچانتا ہے، جو زندگی کو جانتا ہے اور جب وہ حصے ختم ہو جاتے ہیں تو صرف دل دھڑکتا ہے اور سانس کی ڈوری قائم رہتی ہے۔ کھانا پینا حوائج ضروری کا احساس سب ختم، سو بدن تو وہی رہتا ہے جو عمر عزیز بسر کر آیا ہے پر دماغ نوزائیدہ۔
نسوانیت کی کمی کا شکار عورت
با اعتماد لڑکی نظر آنا اچنبھے کی بات کیوں نظر آتی ہے؟ زندگی کے میدان میں بے خوفی سے چلنا مرد کے ساتھ ہی وابستہ کیوں کیا جاتا ہے؟ ڈرتی، گھبراتی، شرم سے چھوئی موئی بنی، اعتماد سے عاری، خوف سے تھر تھر کانپتی لڑکی ہی معاشرے کو نارمل کیوں لگتی ہے؟
بلاول بیٹا۔۔۔ اپنی ماں کو شرمندہ مت کرو
کیا جملہ بول دیا تم نے
لڑنا ہے تو مردوں سے لڑو۔۔۔ یہی کہا نا تم نے؟
مغرب میں تعلیم پانے والے ایک مرد نے، اعلی تعلیم یافتہ اور کئی محاذوں پہ مردوں سے ہار نہ ماننے والی عورت کے اکلوتے سپوت نے
یہ تصویر دیکھو، تمہاری ماں نے مجھے تمغہ اعزاز پہنا کر میدان عمل میں اتارا تھا۔
!ڈاکٹر بیٹی کی کنپٹی پر گولی
مگر سب بچیاں تو اتنی خوش قسمت نہیں ہوتیں ، میانوالی کی لیڈی ڈاکٹر سدرہ بھی انہی میں سے ایک تھیں ۔ باپ کا اصرار تھا کہ شادی ان پڑھ کزن سے ہو گی ۔ جبکہ ڈاکٹر سدرہ کا جواب نفی میں تھا۔ ڈاکٹر سدرہ گھر بھی چھوڑنا نہیں چاہتی تھیں تاکہ کوئی ان کے کردار پہ انگلی نہ اٹھا سکے ۔ ہمسایوں کے مطابق اسے کئی بار تشدد کا نشانہ بنایا جا چکا تھا مگر بیٹی نے والدین کے خلاف کسی قسم کا ایکشن نہیں لیا ۔
کچھ ہوا کہ نہیں؟
ہماری تین بیٹیاں، سر آنکھوں پہ رہیں ساری عمر۔ اور یہ جو ہیں ڈاکٹر صاحبہ ان کے تو مزاج ہی نہیں ملتے۔ کہہ کہہ کر تھک گئی کہ بچی سے پوچھ لو، اگر کسی ڈاکٹر کے پاس جانا چاہے تو لے جاؤ یا خود دیکھ لو۔ میں بڑھیا اسی برس کی ہو گئی نہ جانے کب آنکھ بند ہو جائے۔ چلو مرنے سے پہلے یہ خوشی بھی دیکھ لوں۔