Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
سیدہ زینب سلام اللہ علیہا سے سیکھنے کی ضرورت
اے یزيد اگر چہ حادثات زمانہ نے ہمیں اس موڑ پر لا کھڑا کیا ہے اور مجھے قیدی بنایا گیا ہے لیکن جان لے میرے نزدیک تیری طاقت کچھ بھی نہیں ہے۔ خدا کی قسم، خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتی اس کے سوا کسی اور سے گلہ و شکوہ بھی نہیں کروں گی۔ اے یزید مکر و حیلے کے ذریعہ تو ہم لوگوں سے جتنی دشمنی کر سکتا ہے کر لے۔ ہم اہل بیت پیغمبر (ص) سے دشمنی کے لیے تو جتنی بھی سازشیں کر سکتا ہے کر لے لیکن خدا کی قسم تو ہمارے نام کو لوگوں کے دل و ذہن اور تاریخ سے نہیں مٹا سکتا اور چراغ وحی کو نہیں بجھا سکتا تو ہماری حیات اور ہمارے افتخارات کو نہیں مٹا سکتا اور اسی طرح تو اپنے دامن پر لگے ننگ و عار کے بدنما داغ کو بھی نہیں دھوسکتا، خدا کی نفرین و لعنت ہو ظالموں اور ستمگروں پر۔
کیا عورت ہی عورت کی دشمن ہے؟
عورت کی ازدواجی زندگی چودہ سے چوبیس برس کے بیچ شروع ہوتی ہے۔ ایک ایسی زندگی جس میں توقعات اور ذمہ داریوں کے بھاری بوجھ کے ساتھ حقوق سب سے کم۔ دونوں طرف کے خاندان اسے بار بار یہ یاددہانی کرواتے ہیں کہ اگر بسنا ہے تو اپنے حقوق کی بات کبھی نہ کرنا۔ ماں باپ واپسی کا دروازہ بند کر کے بھیجتے ہیں اور شوہر/ سسرال بات بات پہ اپنے گھر سے نکالنے کی دھمکی۔
!شولڈر ڈسٹوشیا ؛ کچھ اور باتیں
لیکن شولڈر ڈسٹوشیا کا مسئلہ یہ ہے کہ سر تو آرام سے نکل آئے گا اور پھنس جائیں گے کندھے۔ اس کا مطلب یہ کہ یا تو کندھے بہت چوڑے تھے یا بچے کا جسم پیٹ میں گھوم کر کندھوں کو درست پوزیشن میں نہیں لا سکا۔
کندھے بڑے ہونے کا ایک رسک فیکٹر ماں کو ذیابیطس ہونا ہے۔ ذیابیطس کے ساتھ اگر بچہ وزن میں چار کلو سے اوپر ہو جائے تو مناسب نہیں کہ نارمل ڈلیوری کروائی جائے۔
!ایک تصویر اور وڈیو۔ آٹھ مارچ کا توشہ خاص
تصویر نے معاشرے کی وہ تصویر دکھائی جس کا سامنا ہر طبقے کی عورت کو ہے۔ وہ سارہ انعام ہو، نور مقدم ہو یا شہلا شاہ۔ وہ سب جن سے کسی نہ کسی مرد نے زندگی چھین لی۔ کبھی غیرت کے نام پہ، کبھی عزت کی خاطر، کبھی غصے میں پاگل ہو کر اور کبھی طاقت کے نشے میں دیوانہ بن کر۔
!ابا اور منی آرڈر
ہر ماہ کی تیسری تاریخ ایک مخصوص دستک کے ساتھ جب نام سنائی دیتا تو ہمارے چہرے پہ بے اختیار مسکراہٹ دوڑ جاتی۔ چارپائی کے نیچے رکھی جوتی پہن کر دروازہ کھولتے تو بلاک کا چوکیدار کہہ رہا ہوتا، ڈاکیہ بلا رہا ہے جی آپ کو۔
موت سے پہلے ہی قبر میں جا لیٹوں کیا؟
سر گھوم گیا بڑی بی کی باتیں سن کر اور نظر کے سامنے اپنے یہاں کی عورت آ گئی جس پر شادی کے بعد ہر دروازہ بند ہو جاتا ہے سوائے گھر داری، زچگی اور بچوں کی پرورش کے۔ اور جب وہ ان سے فارغ ہوتی ہے تو اس کے ہاتھ میں تسبیح پکڑا دی جاتی ہے کہ اب آپ اللہ اللہ کرو، آخرت کی تیاری۔