ماں یا ہومر کی کیمارہ

ماں یا ہومر کی کیمارہ ؟

ماں یا ہومر کی کیمارہ ؟

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

تم کون ہو؟
میں. . . میں. . . کیمارہ!
کیمارہ؟
وہ میں ہوں، میں وہ ہوں. . .!
کیا مطلب ؟
میں اس کے اندر، وہ میرے اندر . . . !
وہ . . .؟ وہ کون؟
وہ . . . جس نے مجھے جنم دیا۔
اور تم کس کے اندر؟
جسے میں نے جنم دیا۔
ایک عورت یا تین؟
ایک کے اندر دو. . . سو کل ہوئیں تین۔
ایک دوسرے سے بنی . . .!
ایک دوسرے کے اندر بسی . . . !
ہومر کہتا ہے تم کیمارہ ہو . . . !
ہاں میں کیمارہ ہوں . . . شیر کا جسم، اژدہے کے پر، سانپ کی دم اور بکری کا سر یونانی مائی تھالوجی یا دیومالا کا کردار کیمارہ جس پہ ہومر نے اپنی نظم میں لکھا

Poem Known as “I lead”: she was of divine stock not of men, in the fore part a lion, in the hinder a serpent, and in the midst a goat, breathing forth in terrible wise the might of blazing fire.

وہ ماورائی مخلوق تھی . . . سامنے سے شیر، درمیان میں بکری اور پیچھے سے سانپ . . . اپنی سانسوں میں آگ سی تپش خارج کرتی ہوئی۔ ہاں میں ماورائی مخلوق ہی تو ہوں۔ میرا نام ہے عورت! میری ماں نے مجھے پیٹ میں رکھا، اس کا لہو میرے بدن میں، میرا لہو اس کے بدن میں. . . نو مہینے ہم ایک دوسرے کے ساتھ رہے. . . ایک دوسرے کو محسوس کیا، باتیں کیں، اکھٹے ہنسے، اکھٹے روئے ایک دوسرے کو تھامے ہوئے۔ نو ماہ کے بعد جدائی ہوئی . . . قدرت کا فیصلہ تھا یہ ،لیکن کیسے بھول سکتے تھے ہم وہ وقت؟ کیا دیں تحفہ نشانی کے طور پہ؟ جسم کا ایک ٹکڑا؟ ہاں یہی کہ اس سے قیمتی کوئی اور چیز نہیں . . . رخصت ہوتے وقت میں چھوڑ آئی اس کے پاس اپنے جسم کا ایک ٹکڑا اور وداع کرتے ہوئے اس نے بھی دان کر دیا اپنے جسم کا ایک ٹکڑا۔ پھر زندگی کچھ یوں گزری کہ الفتوں اور کلفتوں سے الجھتے سلجھتے، وہ میرے ساتھ اور میں اس کے ساتھ ۔ وہ میرا ہاتھ تھامے اور میں اس کے کندھے پہ سر رکھے۔ یونہی وہ وقت آ گیا کہ میرے پیٹ میں وہ آ ٹھہری۔ اب میری باری تھی اس کے ساتھ ہنسنے کھیلنے اور رونے کی . . . میں نے اسے سینت سینت کر ویسے ہی رکھا جیسے مجھے رکھا گیا تھا۔ اور پھر وہی جدائی کا وقت . . . تحفہ دینے کی ریت یاد آئی اور میں نے اسے خالی ہاتھ رخصت نہیں کیا۔ وہ بھی محبت سے گندھی تھی سو دے گئی مجھے اپنے جسم کا ایک ٹکڑا۔ میں سپھل ہوئی۔ دو محبت کرنے والیاں میرے اندر آن بسیں۔ میں کیمارہ بن گئی، تین سروں والی ۔ ماں دنیا سے اوجھل ہوئی مگر میرے اندر تو موجود ہے۔ میری نس نس میں دوڑتی ہے۔ میرے ساتھ ہنستی کھیلتی اور باتیں کرتی ہے۔ جس کی میں ماں بنی وہ دور جا بسی، سات سمندر پار۔ لیکن وہ بھی میرے اندر ہے۔ میری رگ رگ میں دوڑتی ہوئی۔ میں ان دونوں کو محسوس کرتی ہوں ہر وقت، ہر لحظہ۔ اور وہ دونوں میری زندگی کی ساجھے دار ہیں ہر گھڑی ہر لحظہ۔ غم کی گھڑی ہو تو ماں کہتی ہے دیکھو آنسو نہیں بہانا، میں ہوں نا تمہارے ساتھ . . . میں بھی …. مہین سی آواز آتی ہے۔ پھر وہ دونوں میرے گرد گھیرا ڈال لیتی ہیں، چھتر چھایا بن جاتی ہیں میری اور سب گھاؤ بھرنے لگتے ہیں۔ ٹھوکر لگے اور گرنے لگوں تو پہلی کہتی ہے، دیکھ کر. . . احتیاط سے. . . اور دوسری دوڑ کر آتی ہے اور ہاتھ تھام لیتی ہے، کوئی غم نہیں، اونچ نیچ ہوئی تو کیا ہوا، میں ہوں نا ۔ اداسی کے لمحات میں پہلی پوچھتی ہے کیا ہوا؟ کیوں ایسے؟ دوسری دوڑ کر آتے ہوئےکہتی ہے، میں بتاؤں نانی. . . یہ آپ کے لیے اداس ہیں ۔ لو ایسے ہی. . . بتاؤ اسے،میں تو اندر ہوں اس کے، ہر وقت، ہر سانس ۔ چھوڑ کر آئی ہوں نا جسم کا ایک ٹکڑا تمہارے اندر، وہ اسی لیے تو ہے کہ یاد آؤں تو اس کو دیکھ لینا۔ نانی، میں نے بھی دیا تھا انہیں تحفہ چلتے ہوئے . . . میں بھی ہوں وہاں آپ کے قریب، بیٹی ہنستی ہے۔ ایک جسم میں تین عورتیں . . . تینوں ہر وقت ساتھ، ساتھ نباہنے والی. . . ہاتھ پکڑکر گرنے نہ دینے والی۔ سوچو ماں آپ کے پاس تین روپ. . . ایک شیر ، ایک بکری اور ایک اژدہا. . . بیٹی کھلکھلاتی ہے ۔ ہم تینوں میں کون کون ہے؟ میں پوچھتی ہوں۔ تینوں میں تینوں . . . جب ضرورت ہو، وہ روپ سامنے آ جائے جو چاہئیے ہو . . . بیٹی اور ماں ہنستی ہیں۔ یہ ہے کمال ایک دوسرے سے جنم لینے کا، جیسے ایک شاخ پہ دوسری اگ آتی ہے . . . پرانی کچھ پیلی کچھ ہری . . . نئی ہری کچور . . . یہ ہے مائیکرو کیمرزم . . . جسے سائنس نے دریافت کیا ہے۔ جب بچہ پیٹ میں بنتا ہے، اس کے کچھ سیل ماں کے اندر جاتے ہیں، کچھ مر جاتے ہیں کچھ بچ جاتے ہیں ۔ بچنے والے وہیں کسی گوشے میں اپنا گھر بنا لیتے ہیں۔ اسی طرح بچے کے اندر بھی ماں کے سیل منتقل ہوتےہیں کچھ ختم ہو جاتے ہیں، کچھ رہ جاتے ہیں، وہیں بس جاتے ہیں ۔
سو ہر عورت جب ماں بنتی ہے اپنے اندر بچے کی کوئی نہ کوئی نشانی سنبھال لیتی ہے اور دم رخصت بچے کو اپنی نشانی دے کر رخصت کرتی ہے۔ ایک جسم اور اس کے اندر ان کی نشانیاں موجود جن کا کسی زمانے میں آپس میں تعلق رہا۔ جسم کا نہ جانے کونسا حصہ کیا بنا؟ شیر؟ بکری؟ اژدھا؟ یا سانپ؟
یہ کرشمہ ہے جنم دینے والی کے بطن کا جو دنیا کے بازار میں نکلنے والوں پہ اپنی چھاپ بھی لگاتا ہے اور اس کی نشانی سنبھال کر بھی رکھتا ہے
۔ ماضی، حال اور مستقبل: ایک میں تین ، ہر ایک میں تین کا تسلسل: بیٹی =ماں= نانی اور نانی=بیٹی= بیٹی یعنی نانیوں کا تسلسل کہیں، یا ماؤں کا تسلسل یا بیٹیوں کا تسلسل یا دن۔

ماؤں کا دن مبارک۔

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *