!خیال نہ کیتا کسے ساڈھا
پڑھی لکھی کام کرتی عورت کو دیکھ کر اس عورت کی آنکھ میں اترتا رشک اور حسرت ان تمام عورتوں کی کہانی ہے جن کے اندر چھپی قابلیت، ذہانت اور خواہشات ایسے دفن کر دی جاتی ہیں جیسے پیدا ہوتے ہی لڑکی گڑھے میں پھینک دی جائے۔
پڑھی لکھی کام کرتی عورت کو دیکھ کر اس عورت کی آنکھ میں اترتا رشک اور حسرت ان تمام عورتوں کی کہانی ہے جن کے اندر چھپی قابلیت، ذہانت اور خواہشات ایسے دفن کر دی جاتی ہیں جیسے پیدا ہوتے ہی لڑکی گڑھے میں پھینک دی جائے۔
موئی ماہواری تو نہیں سمجھتی نا کہ اسے ایسی عورت پر رحم کھانا ہے جس کے لیے پیٹ کی بھوک مٹانا ہی زندگی ہے۔ اگر اسے سمجھ ہوتی تو شاید کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہتی، ان غریبوں کی زندگی کو مزید عذاب میں مبتلا کیوں کروں، 7 دن کیا بہنا، ایک دن ہی کافی اور وہ بھی چند قطرے ثبوت کے لیے کہ ہاں بھئی عورت کا نظام چالو ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ ماہواری اندھی، گونگی اور بہری ہے۔
بچپن میں جب کوئی افسانہ یا کہانی ہم پڑھتے جس میں پچاس پچپن کی عورت کا ذکر ہوتا تو نقشہ کچھ یوں کھینچا جاتا، شکل سے گھاگ نظر آوے، حرکات میں شاطر، نقاہت اور عمر نے ہلنے جلنے کے قابل نہیں چھوڑا، تخت پہ بیٹھی حکم چلاتی اور داؤ پیچ کھیل کر ہر کسی کا دم ناک میں کرتی ہوئی بڑھیا۔
ہاتھ میں تسبیح، زبان پہ ریاست مدینہ کی مثالیں، اقتدار کی کرسی پہ براجمان اور تجاہل عارفانہ۔ بے خبری سی بےخبری کہ آخر پولیس کے شعبے میں کچھ بہتری کیوں نہیں آئی ابھی تک۔ کیا عمدہ مذاق ہے ہم سے بھی اور اپنے آپ سے بھی
ہمارے بچپن میں جب محرم آتا تو سکول کی بیشتر لڑکیاں ہمیں دیکھ کے سرگوشیوں میں باتیں کرتیں۔ اورجب ہم متوجہ ہوتے تو خاموشی چھا جاتی۔ ہمارے فرقے کے متعلق مختلف باتیں مشہور کر دی گئیں تھیں۔ مثلا ہم گھر آنے والے مہمان کو مشروب میں اپنا تھوک ڈال کے پلاتے ہیں۔ امام حسین کے نام کی نیاز خون ڈال کے پکائی جاتی ہے۔ نویں محرم کی رات کو روشنی گل کر کے مرد و زن گلے ملتے ہیں۔ یہ لمبی اعتراضات کی فہرست نہ تھی بلکہ نفرت کے بیج تھے جو گزرتے زمانوں میں بوئے جا رہے تھے۔
امرتا نے شاعری اور نثر میں تقریبا سو کتابیں لکھیں، دونوں ملکوں میں بے تحاشا عزت کمائی۔ انڈیا میں بہت ایوارڈ پائے لیکن لاشعوری طور پہ انتظار کیا کہ شاید جنم دیس والے بھی یاد کریں۔ وہ عمر کے آخری حصے میں تھیں، جب پنجابی اکیڈمی نے انہیں ایوارڈ دینے کا اعلان کیا اور وہ بے ساختہ کہہ اٹھیں
میڈیکل سائنس ایک ایسا شعبہ ہے، جہاں دن رات تحقیقات کی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔ پیچیدہ گتھیاں حل کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ کبھی کوئی جواب ملتا ہے اور کبھی کوئی سوال مزید وقت مانگتا ہے۔ ان تحقیقات کو ہر سال ڈاکٹروں کے اجتماع میں پیش کیا جاتا ہے۔ یہ بہت اہم ہے کہ ہر ڈاکٹر اپنی متعلقہ فیلڈ کی کانفرنس میں شرکت کرے۔ یہ اپنے شعبے میں ہونے والی نئى پیش رفت سے شناسائی کا ایک موثر طریقہ ہے۔
میڈیا پہ بیٹھ کے چیختی آواز میں نصیحتیں کرنا بہت آسان ہے۔ زندگی کی تلخ حقیقتوں کو دیکھنا اور ان کے لئے آواز اٹھانا صرف احساس اور درد مند لوگوں کا خاصہ ہے اور معلوم یہ ہوتا ہے کہ مسز خان نے زندگی کو اپنے چھپر کھٹ کی اوٹ سے دیکھا ہے، گھونگھٹ کے پلو سے جھانکا ہے، انہیں جنوبی ایشیا میں بسنے والی عورت کی اس زندگی کا براہ راست تجربہ نہیں جس میں عورت صرف چکی کے دو پاٹوں میں نہیں پستی بلکہ سل پر رگڑ کھاتے بٹے تلے مسلسل مسلی بھی جاتی ہے۔
رشتے خون کے ہوں یا محبت کے، دوستی ہو یا تعلق داری، چاہ اور پرواہ کی بوندیں اترنی چاہیئں، تواتر کے ساتھ، قطرہ قطرہ۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو دوری، لاتعلقی، بیگانگی، بے رخی اور فاصلوں کا زہر ان کو وقت کے اتھاہ سرد خانے میں دھکیل کے انجام سے پہلے مار ڈالتا ہے۔ یوں سمجھیے کہ دنیا کے کسی بھی تعلق کو سرد مہری سے نہیں برتا جا سکتا۔ یہ خوش فہمی نہیں پالی جا سکتی کہ رشتہ کچھ بھی ہو، قائم رہے گا۔
کسی بھی قوم یا فرد کا انسانی قدروں کو خیرباد کہنے کا بدلاؤ ایک دن کی بات نہیں ہوا کرتی۔ یہ عشروں پہ محیط کہانی ہوا کرتی ہے۔ ہم نے اپنے معاشرے کو بتدریج اخلاقیات اور انسانیت کے درجے سےمحروم ہوتے دیکھا ہے۔ تشدد آمیز، بہیمانہ حیوانی عمل میں مبتلا چلتی پھرتی لاشیں ایک دن میں وجود نہیں آئیں۔