اگرصفیہ اور زبیدہ، رینا اور روینا بن جائیں

عورت ہوں، گائناکولوجسٹ ہوں پر یہ معلوم نہیں کہ بارہ اور چودہ سال جو ابھی بچپن اور لڑکپن کا دور ہے، جو گڑیوں سے کھیلنے کی لا ابالی سی عمر ہے جہاں معمولی باتوں کی سمجھ نہیں ہوتی، جہاں ابھی اپنی پہچان نہیں ہوتی، جہاں زندگی کیا ہے، کیوں ہے، کیسے ہے، کا فہم نہیں ہوتا۔ بلوغت کے مسائل، جسمانی تبدیلوں اور بدلتے ہارمونز کا اندازہ نہیں ہوتا۔ وہاں کیسے، کس طرح ان بچیوں نے شعور کی منزلیں طے کر لیں کہ گھر سے نکلیں، مذہب کے ساتھ ساتھ سب کچھ چھوڑنے کا فیصلہ کیا، شادی رچائی اور اب مسرور و شاداں بیٹھی ہیں۔

ہم جنتی لوگ ہیں

ہماری بیٹی ایک محفل کا احوال سنا رہی تھی جہاں مختلف قومیتوں، مختلف مذاہب کے لوگ موجود تھے۔ کسی بات کی بحث کے دوران ایک نے میری بیٹی سے مخاطب ہو کے کہا، ہمیں معلوم ہے کہ تم مسلمان مذہبی احساس برتری کے مارے لوگ ہو اور ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہو کہ ہم تو سیدھا جہنم کا مال ہیں، چاہے ہم جتنے چاہیں نیکی کے کام کر لیں، ہمارا ٹھکانا جہنم ہی ہو گا اور جنت تو تخلیق ہی تم لوگوں کے لئے ہوئی ہے اور برے سے برا بندہ بھی جنت میں جائے گا کہ بلآخر معاف کر دیا جائے گا۔ ہماری بیٹی کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہ تھا۔ اور شاید ہمارے پاس بھی نہیں ہے۔

میں نے اپنی ماں کو قطرہ قطرہ پگھلتے دیکھا

امی بہت شاندار عورت تھیں، زندگی کی حرارت سے بھرپور، بہت شوقین مزاج۔ انھوں نے زندگی کو بھرپور جیا اور کیا خوب جیا۔ اور میں نے ایسی خوب صورت شخصیت کو قطرہ قطرہ پگھل کر تحلیل ہوتے دیکھا، ان کی طبعی موت تو جنوری میں ہوئی مگر اصل میں وہ ہم سے کئی سال پہلے جدا ہو چکی تھیں

میری امی، پیاری امی

امی بہت شاندار عورت تھیں، زندگی کی حرارت سے بھرپور، بہت شوقین مزاج۔ انھوں نے زندگی کو بھرپور جیا اور کیا خوب جیا۔ اور میں نے ایسی خوب صورت شخصیت کو قطرہ قطرہ پگھل کر تحلیل ہوتے دیکھا، ان کی طبعی موت تو جنوری میں ہوئی مگر اصل میں وہ ہم سے کئی سال پہلے جدا ہو چکی تھیں

اکیسویں صدی کی تعلیم یافتہ بھیڑ بکریاں اور شرم حیا سکھانے والے

ہمار ے نزدیک وہ بہت زیادہ مبارک کے مستحق ہیں کہ معاشرے میں ایک نئئے ٹرینڈ کے بانی ہیں اور وہ کام جو ضیا الحق کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ صرف میڈیا کی عورتوں کے ساتھ محدود رہے وہ آج ان کے پیروکاروں نے کر دکھایا۔

ایک اور لحاظ سے بھی وہ قابل تحسین ہیں کہ انہوں نے بچارے کم عقل، اور نا سمجھ ماں باپ کو گائیڈ کیا ہے جو غم روزگار میں الجھ کے اپنی بیٹیوں کو اعلی تعلیم یافتہ بنانے کا خواب دیکھ کر، یونی ورسٹی تو بھیج دیتے ہیں مگر ساتھی طالب علموں سے لے کر استادوں تک، کو اذیت میں مبتلا کر دیتے ہیں اسی لئے کسی بہت ہی ذہین اور فطین شخص نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور ماں باپ کو آئینہ بھی دکھایا گیا اور تنبیہ بھی۔

مجھے ڈھانپ دو کہ تمہارا ایمان متزلزل ہو جاتا ہے

تم مت کرنا آنکھیں نیچے، تم مت روکنا اپنی ہوس، تم مت قابو کرنا اپنی نفسانی خواہشات، تم مت بند کرنا مجھے دیکھ کے کھجانا، تم مت چھوڑنا اپنا تکیہ کلام ، ماں دی اور پیں دی، تم مت بند کرنا جنسی لطیفے سنانا اور سننا، تم مت چھوڑنا پورن فلمیں دیکھنا۔

آپ کے گھر کھسرا پیدا کیوں نہیں ہوا

ہم نے اپنی امی سے پوچھنے کی کوشش کی کہ یہ کون ہیں، امی نے جواب دینے کی بجائے فورا کوئی اور بات کر کے ہمارا دھیان بٹانا چاہا، ایک آدھ دفعہ کے لئے تو ٹھیک تھا اور ہم بہل بھی گئے مگر ان سوالوں کے جواب ہمیں کبھی نہ ملے، ہماری پر تجسس طبیعت نے جب ہار نہ مانی تو امی جھنجلا کے بولتیں ”چپ ہو جاؤ، دماغ نہ کھاؤ“ بہر حال اس ساری کہانی میں ہمیں ایک نام ازبر ہو چکا تھا جو ہم نے کسی دکاندار کو کہتے سنا تھا اور وہ تھا کھسرے

شاعر مشرق کی روح تڑپتی تو ہو گی

ہم سمجھتے ہیں کہ جن لوگوں نے باقاعدہ طور پہ شاعروں کو نہیں پڑھا ہوتا تو اس میں ان کا کوئی قصور نہ تھا، ایسے لوگ دیکھنے کو ملے جنہیں نہایت ادب سے جب بتایا گیا تو انہوں نے اسے خوش دلی سے قبول کیا، ایسوں کے ساتھ کچھ ایسے بھی تھی جنہوں نے اسے اپنی ہتک سمجھتے ہوئے ماننے سے انکار کر دیا اور اپنی ساری توانائی شعر کو اصلی ثابت کرنے صرف کی۔

جنگل کا ننگے پاؤں شکاری اور غار کی مال

پچھلے زمانوں میں جب حضرت انسان جنگلوں میں دوڑا پھرتا تھا، نہ تن ڈھانپنے کا شوق، نہ ننگے پاؤں کی فکر۔ فطرت نے ہر غم زندگی سے آزاد رکھا ہوا تھا۔ مرد شکار کے پیچھے دوڑتا اور عورت لائے ہوئے شکار کو نظام ہضم کا حصہ بنانے میں مدد کرتی۔ طاقت کے استعمال نے مرد کو اپنے طور ہی باور کروایا کہ نیزہ لے کے دوڑنا ہی بنیادی کام ہے سو فطرت کے اس نظام کی ڈور اس کے ہاتھ میں ہے۔

اماں میری شادی پنجابی مرد سے مت کرنا

آزادی کے اس قدر قائل کہ گھر میں کسی کتاب، کسی رسالے پر کوئی پابندی نہ تھی، اردو ڈائجسٹ، سیارہ ڈائجسٹ ماہانہ آتے اور گھر کا ہر فرد انہیں پڑھنے کے لئے آزاد، ابن صفی کے ناول وہ دفتر کی لائبریری سے لے کر آتے تو ان سے پہلے ہم پڑھتے۔ سکول میں جب میں بتاتی کہ میرے ابا ہمیں خود ناول لاکر دیتے ہیں تو وہ لڑلیاں جو کتابوں میں یا باتھ روم میں چھپاکر پڑھتیں وہ ہمیں کسی اورسیارے کی مخلوق سمجھتیں۔