!یوتھ کلب کے بھولے بھالے مردوں عرف بھیڑیوں کے نام ایک خط

!یوتھ کلب کے بھولے بھالے مردوں عرف بھیڑیوں کے نام ایک خط

ارے معصوم بھیڑیو۔ عورت تو یہ سب سمجھتی ہے، جانتی اور مانتی ہے مگر مشکل یہ ہے کہ جب کوئی جہاں دیدہ عورت درو دیوار میں قید معصوم بچیوں کو سمجھانے کی کوشش کرتی ہے تب آپ جیسے سب مردوں نا مردوں عرف بھیڑیوں کو لگ جاتی ہے مرچی۔ اور سب کے سب چیخ اٹھتے ہیں، فیمینسٹ عورتیں مردوں۔ سوری بھیڑیوں کی دشمن ہیں۔

پانچ سو یا پانچ سو ایک؟

پانچ سو یا پانچ سو ایک؟

ویسے تو جو بچہ شہ بالا بنا بیٹھا ہوتا اسے بھی سب دو چار روپے تھما رہے ہوتے اور شہ بالا صاحب کی اکڑ پورے عروج پہ ہوتی کہ ساتھ کے بچوں سے آنکھیں ہی نہ ملاتے۔ ایسے موقعوں پہ ہمیں رسم و رواج پہ غصہ بھی آتا اور شکوہ بھی۔ یہ کیا بات ہوئی بھلا؟ لڑکا ہی کیوں بنے شہ بالا؟ لڑکا ہی کیوں بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے؟ مطلب دولہا دلہن کا ساتھ اور ڈھیر سے روپے۔ آخر شہ بالی کیوں نہیں؟ جائیں ہم نہیں بولتے۔

!Himpathy میل شاؤنزم کی عینک اور

!Himpathy میل شاؤنزم کی عینک اور

سوشل میڈیا پہ بہت سی ایسی پوسٹس پڑھنے کو ملتی ہیں جن میں بہت سی ایسی عورتوں کو لعن طعن کیا جاتا ہے جنہوں نے صاحب پوسٹ کے سامنے اپنے شوہر سے زیادتی کی۔ وہ صاحب پوسٹ کو چڑیل لگیں اور شوہر صاحب انتہائی معصوم و مظلوم۔

!ایک اور ہیرا

!ایک اور ہیرا

صاحب کی پوسٹنگ ملتان اور ہماری نشتر ہسپتال۔ عید پہ پنڈی آنا لازم کہ میکہ اور سسرال دونوں پنڈی میں۔ ان دنوں موٹر وے تو تھی نہیں سو جی ٹی روڈ پر ہی سفر کرنا پڑتا تھا۔ کبھی لاہور رکنے کا پروگرام نہ ہوتا تو پنڈی سے ملتان کا سفر دس گھنٹے کی ڈرائیونگ۔ یاد رہے ہمارے پاس کار تھی مہران جسے اب دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ اتنا لمبا سفر اور اس منی سی کار پہ۔ بیٹی کو ہم پچھلی سیٹ پہ لٹا دیتے جہاں وہ اپنی گڑیوں سے کھیلتی رہتی۔

!ہیرے کی انگوٹھی

!ہیرے کی انگوٹھی

شباب تک پہنچنے پہ ہماری زندگی میں کسی انگوٹھی کا عمل دخل نہیں تھا۔ ہاں سب رسالے، ناول، افسانے بتاتے تھے کہ ہیروئن ہیرو کی دی ہوئی ہیرے کی انگوٹھی پہن کر اپنے آپ کو ساتویں آسمان پہ محسوس کرتی ہے۔ ہماری اماں اور آپا کے پاس تو کوئی ایسی انگوٹھی تھی نہیں جسے پہن کر ہم ساتواں نہ سہی کوئی پہلے دوسرے آسمان کی زیارت کرتے۔

!اپنے جسم کے متعلق جانیے اور ڈاکٹر کو حیران کر دیجیے

!اپنے جسم کے متعلق جانیے اور ڈاکٹر کو حیران کر دیجیے

ایسے بہت سے واقعات ہم لکھتے ہیں جن میں ڈاکٹرز کی محنت، لگن اور کوشش قارئین کے سامنے لائی جاتی ہے۔ لیکن تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہوتا ہے اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ وہ بھی دکھایا جائے۔ ایسی ہی ایک صورتحال کا سامنا تھا ہمیں جب ہم نے اپنی ٹیم ممبر کا فون رات کے دو بجے سنا۔

موت سے پہلے ہی قبر میں جا لیٹوں کیا؟

موت سے پہلے ہی قبر میں جا لیٹوں کیا؟

سر گھوم گیا بڑی بی کی باتیں سن کر اور نظر کے سامنے اپنے یہاں کی عورت آ گئی جس پر شادی کے بعد ہر دروازہ بند ہو جاتا ہے سوائے گھر داری، زچگی اور بچوں کی پرورش کے۔ اور جب وہ ان سے فارغ ہوتی ہے تو اس کے ہاتھ میں تسبیح پکڑا دی جاتی ہے کہ اب آپ اللہ اللہ کرو، آخرت کی تیاری۔

!دائی طاہرہ کی ایک رات
|

!دائی طاہرہ کی ایک رات

کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ ساری رات فون بجتا ہے لیکن جانے کی نوبت نہیں آتی۔ کیفیت سن کے ہی مسئلہ حل۔ فون کی پہلی گھنٹی پہ ہم اس قدر الرٹ سنائی دیتے ہیں کہ فون کرنے والی پوچھتی ہے کیا آپ جاگ رہی تھیں؟ کیا بتائیں کہ نیند آئے بھی تو ایک آنکھ سوتی ہے دوسری جاگتی ہے۔

!جوں کی رفتار سے رینگتی ہوئی جوئیں

!جوں کی رفتار سے رینگتی ہوئی جوئیں

سکول کے ہر گروپ میں ہر دل عزیز، محلے کے سب گھروں میں دوستی، غیر نصابی سرگرمیوں کے لیے دوسرے سکولوں میں آمدورفت، وی سی آر پہ فلم دیکھنے کے شائقین کے درمیان ہم موجود، رشتے داروں کے گھر اماں کے ساتھ جانے کو ہم تیار، محرم کی مجلسوں میں ہم آگے آگے، نیاز اور معجزے پڑھنے کی محفلوں کے متحرک ممبر۔ سو آپ ہی بتائیے جب اتنے بے شمار سروں سے ہر وقت کا میل ہو گا تو جوں چڑھ ہی جائے گی نا سر میں۔ آخر محترمہ جوں کو بھی شوق ہو سکتا ہے نت نئی جگہیں پھرنے کا اور اگر سیر گھنے جنگلات کی ہو تو کیا ہی کہنے!