ڈاکٹر کی ڈائری!

!ڈاکٹر کی ڈائری

خون کی دو بوتلیں، بچے دانی میں انجکشن، مقعد میں گولیاں اور سوئی دھاگے کا کمال ۔ ۔ ۔ کاک ٹیل تو چڑھا دی ہم نے مریض کو۔ معاملہ کچھ ہی دیر میں سدھر گیا تو سب کی سانس میں سانس آئی۔ اُڑتی ہوائیاں کہیں ادھر اُدھر ہو گئیں۔ کچھ تعریف شعریف بھی ہوئی وہ کیا اپنے منہ سے بتائیں ۔ ۔ ۔ آپ ہمارا نام میاں مٹھو ہی نہ رکھ دیں کہیں۔ نا بابا نا گھوٹکی والے میاں مٹھو نہیں جو دن رات ثواب کماتے ہیں چھوٹی بچیوں کو سیدھے راستے پر لا کر۔

جب آنول رحم سے چپک جائے!
|

!جب آنول رحم سے چپک جائے

فکر والی باتیں دو ہیں۔ پہلی یہ کہ سروکس ڈھانپنے والی جگہ سے آنول پھٹ کر خون بہانا شروع کر سکتی ہے جیسے ایک بار پہلے ہو چکا۔ ہو سکتا ہے کہ اگلی بار خون اتنا زیادہ بہے کہ تم وقت پہ ہسپتال ہی نہ پہنچ سکو۔ اس لیے ضروری ہے کہ تم وارڈ میں رہو، اگر بلیڈنگ شروع ہو تو دس منٹ کے اندر تمہارا آپریشن کیا جا سکے۔

کیا آپ کا بچہ اردو کموڈ استعمال کر لیتا ہے؟

کیا آپ کا بچہ اردو کموڈ استعمال کر لیتا ہے؟

اپنے بچوں کو اردو پڑھنا نہ سکھا سکے، ہم نادم ہیں، ندامت کا بوجھ کچھ کم کرنے کے لیے ایک کام ہم نے ضرور کیا کہ ان سے گھر میں اردو بولی۔ نہ صرف بولی بلکہ انہیں بھی بولنے پر مجبور کیا، یہاں تک کہ جب وہ انگریزی میں ہم سے بات کرتے ہم ہاتھ ہلا دیتے کہ بات پلے نہیں پڑی۔ آہستہ آہستہ وہ سمجھ گئے کہ ماں سے اردو بولی جائے گی تو جواب ملے گا، بے چاری اردو میڈیم ماں، ویسے لگتی تو نہیں۔

بچے کے دل کی دھڑکن یا موسیقی کا انترا مکھڑا
|

بچے کے دل کی دھڑکن یا موسیقی کا انترا مکھڑا

ایسا لگتا ہر بچہ رونالڈو یا میسی کا شاگرد ہے، اچھی بھلی سی ٹی جی میں ایسی کک لگاتا کہ دل اچھل کر حلق میں آ جاتا۔ مڈوائف دوڑتی، ڈاکٹر کو پیجر پہ بلاتی، ڈاکٹر بھاگی آتی، آ کر ویجائنا میں ایک بھونپو نما آلہ ڈالتی، بچے کے سر سے دو قطرے خون نکالتی، مشین میں ڈالتی اور مشین دو منٹ بعد بتاتی کہ بچہ خطرے میں ہے یا نہیں؟ اس مشین کی بابت کتابوں میں ہی پڑھا تھا، تبوک میں زیارت ہو گئی۔ خیر جناب یہی کچھ دیکھتے عید آ گئی، دعوتیں کھاتے جلدی سے گزر گئی اور لیجیے رو برو ہونے کا دن آ پہنچا۔

بچہ ہے یا ماں باپ کی خواہشات کا جھنڈا!

!بچہ ہے یا ماں باپ کی خواہشات کا جھنڈا

یاد نہیں کہ کس عمر میں ہم نے سوچا کہ ڈاکٹر بننا ہے۔ جب کہا تو ابا اماں کو کوئی اعتراض نہیں، انکار نامی لفظ ہی نہیں تھا شاید ہمارے چھوٹے سے گھر میں۔ بچپن کی اولین یادوں میں سے ایک یہ کہ گھر آنے والے ہر مہمان کو فخر سے کہتے کہ ہم ہیں مستقبل کے ڈاکٹر۔ اور وہ کتابیں تو بہت عرصہ ہماری اماں نے سنبھال رکھیں، جن پہ ننھے منے ہاتھوں نے شکستہ رسم الخط میں جگہ جگہ لکھا تھا۔ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی۔

ریپسٹ بنا دولہا اور منصف نکاح خواں!

!ریپسٹ بنا دولہا اور منصف نکاح خواں

فرض کریں کہ کسی دن موقع اس کا دوست بن جائے اور ہمارا دشمن، تنہائی ایسی ہو کہ سایہ بھی ڈرے۔ ایسے میں ہمسایہ گھر میں کودے اور ہاتھ پاؤں باندھ کر ہمارا ریپ کر ڈالے۔ ایسی نظروں سے مت دیکھیے جناب اور توبہ استغفار کا ورد بھی کیوں؟ جب ہمارے ارد گرد کوئی نہ کوئی لڑکی ہر وقت ریپ ہو سکتی ہے تو ہمارے فرض کرنے میں کیسی قباحت؟

ہم نے سیزیرین کیوں کروایا؟
|

ہم نے سیزیرین کیوں کروایا؟

وہ وقت دور نہیں جب گھر کی بہو بیٹی ناک سکوڑتے ہوئے کہے گی کہ بڑھیا کو کچھ سمجھ تو آتا نہیں، پتہ نہیں کیا اناپ شناپ کہتی رہتی ہیں۔ خیر آنا تو ہے اس سمے کو، آتا ہے ہمیشہ سب کے لیے تو ہم دیکھیں گے، لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔

ابن صفی؛ تری یاد کا بادل مرے سر پر آیا

ابن صفی؛ تری یاد کا بادل مرے سر پر آیا

اس دن جب تم ہماری طرف لپکیں اور ارد گرد سب کچھ بھلا کر محبت بھری نظروں سے ہمیں دیکھ کر ہنسیں۔ سٹال والا بوڑھا تمہیں ہمارے بارے میں بتانے کی کوشش کرتا رہا اور تم سر جھٹکتے ہوئے کہتی رہیں۔ مجھے علم ہے، سب پتہ ہے۔ پھر ہم سب کو تم نے وہاں سے اٹھا لیا، ہماری بوسیدگی اور خستہ حالی کی پرواہ کیے بغیر۔ اسی محبت سے تم ہمیں اپنے گھر لے گئیں۔ تب سے ہم انتظار میں ہیں کہ تم کب دیکھو گی ہماری طرف؟

زچگی کے لیے سیزیرین یا نارمل ڈیلیوری فیصلہ کس کا؟
| |

زچگی کے لیے سیزیرین یا نارمل ڈیلیوری: فیصلہ کس کا؟

دیکھیے آپ اپنی اماں کو سمجھائیے۔ بچے کی ماں یہ عورت ہے، زچگی کا عمل اپنے جسم پر یہی عورت بھگتے گی، بچے کی وجہ سے جو نقصان ہو گا، چاہے نارمل ہو یا سیزیرین، درد سے اسے ہی گزرنا ہو گا، سو جس کا جسم ہے وہی فیصلہ کرے۔