ابن صفی؛ تری یاد کا بادل مرے سر پر آیا

ابن صفی؛ تری یاد کا بادل مرے سر پر آیا

اس دن جب تم ہماری طرف لپکیں اور ارد گرد سب کچھ بھلا کر محبت بھری نظروں سے ہمیں دیکھ کر ہنسیں۔ سٹال والا بوڑھا تمہیں ہمارے بارے میں بتانے کی کوشش کرتا رہا اور تم سر جھٹکتے ہوئے کہتی رہیں۔ مجھے علم ہے، سب پتہ ہے۔ پھر ہم سب کو تم نے وہاں سے اٹھا لیا، ہماری بوسیدگی اور خستہ حالی کی پرواہ کیے بغیر۔ اسی محبت سے تم ہمیں اپنے گھر لے گئیں۔ تب سے ہم انتظار میں ہیں کہ تم کب دیکھو گی ہماری طرف؟

زچگی کے لیے سیزیرین یا نارمل ڈیلیوری فیصلہ کس کا؟
| |

زچگی کے لیے سیزیرین یا نارمل ڈیلیوری: فیصلہ کس کا؟

دیکھیے آپ اپنی اماں کو سمجھائیے۔ بچے کی ماں یہ عورت ہے، زچگی کا عمل اپنے جسم پر یہی عورت بھگتے گی، بچے کی وجہ سے جو نقصان ہو گا، چاہے نارمل ہو یا سیزیرین، درد سے اسے ہی گزرنا ہو گا، سو جس کا جسم ہے وہی فیصلہ کرے۔

نہ جانے، کوئی نہ جانے؟
|

نہ جانے، کوئی نہ جانے؟

ساتھ کھڑی نرس اگر پشپا ہو تو راجیش کھنہ کی یاد تو آئے گی نا۔ جب وہ اپنی ہیروئن کو انتہائی رومانوی انداز اور گہری آواز میں مخاطب کرتے ہوئے کہتا پشپا، تو ہال میں بیٹھی فلم دیکھنے والی سب پشپاؤں کا دل تو دھڑکنا بھول جاتا ہو گانا۔ یہی سوچ کر دل لگی پر من اتر آتا ہے، آواز کو گہری بناتے ہوئے کہتی ہوں، پشپا ذرا قینچی تو پکڑانا جس سے وہ بے اختیار شرما جاتی ہے، جانتے ہوئے بھی کہ وہ کہیں نہیں ہے یہ اس کی آواز کی پرچھائیں ہے۔

مشتاق احمد یوسفی اور ضیا محی الدین ہنستے ہیں!

!مشتاق احمد یوسفی اور ضیا محی الدین ہنستے ہیں

بعض خواتین جس انداز سے چہل قدمی کرتی ہیں اسے چہل قدمی کہنا مناسب ہو گا۔ مرزا عبدالودود کہتے ہیں کہ چال کی خوبی سے ہی چال چلن کی خرابی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ( قہقہے اور تالیاں ) ۔ اس قیامت کا نظارہ کسی کو سامنے سے دیکھ کر نہیں ہوتا، پیچھے سے ہی دیکھ کر کھلتا ہے ( قہقہے ) چال کی چاپ اور چھب چھاب کیسی ہے، ایک خوبی ہو تو بیان کریں؟ ( قہقہے )

پیارا دل دل دل اور اردو کانفرنس!

!پیارا دل دل دل اور اردو کانفرنس

جھوم جھوم کے، اچھل اچھل کے گاتے رہے۔ ہر وقت خیال رہا کہ حسن جہانگیر سے کم نہ لگیں۔ آخر کب تک؟ گا گا کر جب تھک گئے تو سوچا، اب کوئی غمگین گیت۔ مل گیا فوراً۔ لیجیے جناب اب آہیں بھر بھر کے، گہری سانسیں۔ میرے دل کی ہے آواز کہ بچھڑا یار ملے گا۔

!رحم کرنا ڈاکٹر۔ چھوٹے بچے ہیں میرے
|

!رحم کرنا ڈاکٹر۔ چھوٹے بچے ہیں میرے

ڈاکٹر پلیز آپریشن ٹھیک کرنا، اچھے سے۔ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔
ہائیں اب کیا کہیں؟ کیا اپنی تعریف کے پل باندھیں یا کچھ اور؟
ڈاکٹر، گھر میں چھوٹے چھوٹے بچے ہیں میرے۔

دیکھو بچے تو ہمارے بھی ہیں، اور ہمیں تو چھوٹے ہی لگتے ہیں باوجود ان کے احتجاج کے۔ اماں ہم گود والے بیبیز نہیں رہے اب۔

ادب میں خاتون قلمکار کی ویلڈٹی

ادب میں خاتون قلمکار کی ویلڈٹی ، اور بھگوڑا شوہر، اشفاق احمد اور بانو قدسیائی سوچ کی روشنی میں

آفاقی ادب یہ سجھاتا ہے کہ مرد و عورت کے بیچ صنفی فرق کم عقلوں کا ذہنی فتور اور دماغی خلل ہے۔ لیکن اس وقت کیا کیجیے کہ ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا سمجھنے والے بونے ادیبوں کی رائے میں یہی بنیادی فرق بن جائے جس پہ مرد و عورت کو میزان پہ تولا جانے لگے علیحدہ علیحدہ۔ معاشرے کا اصرار ہے ایسی باتیں کتابوں میں رہنے دو، زندگی کا حصہ نہ بناؤ۔

ہم ہم ہیں، آپ نہیں
|

!ہم ہم ہیں، آپ نہیں- اولاد کا وہ ڈائیلاگ جس نے ماں کی آنکھیں کھول دیں

سمجھ لیجیے کہ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ بچہ اپنے گن استعمال نہیں کر پاتا، اپنے آپ کو دریافت کرنے میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ اسے جس راہ پر چلایا جا رہا ہوتا ہے وہ راہ اس کے لیے نہیں بنا ہوتا بلکہ وہ تو کسی اور منزل کا مسافر ہوتا ہے۔ امتیازی نمبر نہ لینے کو ناکامی سے تعبیر کرنے والوں کا ذہن شاید اس جوہڑ کی مانند ہوتا ہے جو تازہ پانی کی خوشبو سمجھ ہی نہیں پاتا۔

_کالے رنگ نوں گورا کر دے تے گورے نوں چن ورگا!

‎!کالے رنگ نوں گورا کر دے تے گورے نوں چن ورگا

‎ ”بیٹا گورے رنگ سے کچھ نہیں ہوتا، تم دیکھو تمہاری آنکھیں کس قدر خوبصورت۔ تمہاری ناک کتنی پیاری۔ بال اتنے گھنے“
‎ ”نہیں ماں رنگ تو اتنا ڈارک ہے میرا یہ دیکھیں آپ کی بازو اور میرا بازو۔ سفید فراک پہن کر اچھی ہی نہیں لگتی“
وہ بازو پھیلائے کھڑی تھی اور ظالم وقت ہمیں کچھ یاد کروا رہا تھا۔