پروفیسر لبنی اعجاز کی مسیحائی!

!پروفیسر لبنی اعجاز کی مسیحائی

واہ بھئی، ہماری دوست پروفیسر لبنی اعجاز موجود ہیں یہاں تو۔ 2003 کا وہ زمانہ یاد آ گیا جب وہ پروفیسر اسلم کے ساتھ اسسٹنٹ پروفیسر تھیں اور ہم سینئیر رجسٹرار۔ وہ باتیں سننے کی شوقین، ہم باتیں بگھارنے کے۔ نت نئے لباس ان کا بھی شوق، ہمارا بھی، وہ بھی دو بیٹیوں کی ماں، ہم بھی۔ وہ بھی فاطمہ جناح میڈیکل کالج کا چراغ، ہم بھی۔ مشہور گائناکالوجسٹ پروفیسر فخر النسا کی بھتیجی۔ یہاں ہم مار کھا گئے کہ اکلوتی پھوپھی ذہین تو بہت تھیں مگر سادات کی بیٹیوں کے لیے نام لکھ لینا ہی کافی تھا۔

منٹو کی شاداں اور اکیسویں صدی کی لڑکی!

!منٹو کی شاداں اور اکیسویں صدی کی لڑکی

عدالت ہمیشہ گواہ مانگتی ہے۔ مظلوم سے ظلم کا ثبوت۔ لائی ہوں گواہ بھی اور ثبوت بھی۔ جی جی ساتھ ہیں دونوں۔ دیکھنا پسند فرمائیں گے بندی کا کٹا پھٹا مضروب جسم۔ دس طویل برس، جنسی تشدد، پانچ برس کی بچی سے پندرہ برس کی لڑکی تک کا سفر۔

خیال نہ کیتا کسے ساڈھا! Featured

!خیال نہ کیتا کسے ساڈھا

پڑھی لکھی کام کرتی عورت کو دیکھ کر اس عورت کی آنکھ میں اترتا رشک اور حسرت ان تمام عورتوں کی کہانی ہے جن کے اندر چھپی قابلیت، ذہانت اور خواہشات ایسے دفن کر دی جاتی ہیں جیسے پیدا ہوتے ہی لڑکی گڑھے میں پھینک دی جائے۔

سیلاب زدہ عورتوں کی گونگی، بہری، اندھی اور غریب ماہواری!
| |

!سیلاب زدہ عورتوں کی گونگی، بہری، اندھی اور غریب ماہواری

موئی ماہواری تو نہیں سمجھتی نا کہ اسے ایسی عورت پر رحم کھانا ہے جس کے لیے پیٹ کی بھوک مٹانا ہی زندگی ہے۔ اگر اسے سمجھ ہوتی تو شاید کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہتی، ان غریبوں کی زندگی کو مزید عذاب میں مبتلا کیوں کروں، 7 دن کیا بہنا، ایک دن ہی کافی اور وہ بھی چند قطرے ثبوت کے لیے کہ ہاں بھئی عورت کا نظام چالو ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ ماہواری اندھی، گونگی اور بہری ہے۔

داڑھی کا ایک بال، بڑھیا اور سالگرہ!

!داڑھی کا ایک بال، بڑھیا اور سالگرہ

بچپن میں جب کوئی افسانہ یا کہانی ہم پڑھتے جس میں پچاس پچپن کی عورت کا ذکر ہوتا تو نقشہ کچھ یوں کھینچا جاتا، شکل سے گھاگ نظر آوے، حرکات میں شاطر، نقاہت اور عمر نے ہلنے جلنے کے قابل نہیں چھوڑا، تخت پہ بیٹھی حکم چلاتی اور داؤ پیچ کھیل کر ہر کسی کا دم ناک میں کرتی ہوئی بڑھیا۔

صلاح الد ین! یہ کربلا ہے

ہاتھ میں تسبیح، زبان پہ ریاست مدینہ کی مثالیں، اقتدار کی کرسی پہ براجمان اور تجاہل عارفانہ۔ بے خبری سی بےخبری کہ آخر پولیس کے شعبے میں کچھ بہتری کیوں نہیں آئی ابھی تک۔ کیا عمدہ مذاق ہے ہم سے بھی اور اپنے آپ سے بھی

!آیا ہے کربلا میں غریب الوطن کوئی

ہمارے بچپن میں جب محرم آتا تو سکول کی بیشتر لڑکیاں ہمیں دیکھ کے سرگوشیوں میں باتیں کرتیں۔ اورجب ہم متوجہ ہوتے تو خاموشی چھا جاتی۔ ہمارے فرقے کے متعلق مختلف باتیں مشہور کر دی گئیں تھیں۔ مثلا ہم گھر آنے والے مہمان کو مشروب میں اپنا تھوک ڈال کے پلاتے ہیں۔ امام حسین کے نام کی نیاز خون ڈال کے پکائی جاتی ہے۔ نویں محرم کی رات کو روشنی گل کر کے مرد و زن گلے ملتے ہیں۔ یہ لمبی اعتراضات کی فہرست نہ تھی بلکہ نفرت کے بیج تھے جو گزرتے زمانوں میں بوئے جا رہے تھے۔

امرتا پریتم: ایک صدی تمام ہوئی

امرتا نے شاعری اور نثر میں تقریبا سو کتابیں لکھیں، دونوں ملکوں میں بے تحاشا عزت کمائی۔ انڈیا میں بہت ایوارڈ پائے لیکن لاشعوری طور پہ انتظار کیا کہ شاید جنم دیس والے بھی یاد کریں۔ وہ عمر کے آخری حصے میں تھیں، جب پنجابی اکیڈمی نے انہیں ایوارڈ دینے کا اعلان کیا اور وہ بے ساختہ کہہ اٹھیں

نکلنا پراگ کے لئے اور رکنا فرینکفرٹ ایرپورٹ پر

میڈیکل سائنس ایک ایسا شعبہ ہے، جہاں دن رات تحقیقات کی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔ پیچیدہ گتھیاں حل کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ کبھی کوئی جواب ملتا ہے اور کبھی کوئی سوال مزید وقت مانگتا ہے۔ ان تحقیقات کو ہر سال ڈاکٹروں کے اجتماع میں پیش کیا جاتا ہے۔ یہ بہت اہم ہے کہ ہر ڈاکٹر اپنی متعلقہ فیلڈ کی کانفرنس میں شرکت کرے۔ یہ اپنے شعبے میں ہونے والی نئى پیش رفت سے شناسائی کا ایک موثر طریقہ ہے۔

مسز خان کو فلور کراسنگ پر مبارک باد

میڈیا پہ بیٹھ کے چیختی آواز میں نصیحتیں کرنا بہت آسان ہے۔ زندگی کی تلخ حقیقتوں کو دیکھنا اور ان کے لئے آواز اٹھانا صرف احساس اور درد مند لوگوں کا خاصہ ہے اور معلوم یہ ہوتا ہے کہ مسز خان نے زندگی کو اپنے چھپر کھٹ کی اوٹ سے دیکھا ہے، گھونگھٹ کے پلو سے جھانکا ہے، انہیں جنوبی ایشیا میں بسنے والی عورت کی اس زندگی کا براہ راست تجربہ نہیں جس میں عورت صرف چکی کے دو پاٹوں میں نہیں پستی بلکہ سل پر رگڑ کھاتے بٹے تلے مسلسل مسلی بھی جاتی ہے۔