پھر تمہارا خط آیا

رشتے خون کے ہوں یا محبت کے، دوستی ہو یا تعلق داری، چاہ اور پرواہ کی بوندیں اترنی چاہیئں، تواتر کے ساتھ، قطرہ قطرہ۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو دوری، لاتعلقی، بیگانگی، بے رخی اور فاصلوں کا زہر ان کو وقت کے اتھاہ سرد خانے میں دھکیل کے انجام سے پہلے مار ڈالتا ہے۔ یوں سمجھیے کہ دنیا کے کسی بھی تعلق کو سرد مہری سے نہیں برتا جا سکتا۔ یہ خوش فہمی نہیں پالی جا سکتی کہ رشتہ کچھ بھی ہو، قائم رہے گا۔

چوری کے شبے پر جان لینے والے جناور اور تماشا کرنے والے زومبی

کسی بھی قوم یا فرد کا انسانی قدروں کو خیرباد کہنے کا بدلاؤ ایک دن کی بات نہیں ہوا کرتی۔ یہ عشروں پہ محیط کہانی ہوا کرتی ہے۔ ہم نے اپنے معاشرے کو بتدریج اخلاقیات اور انسانیت کے درجے سےمحروم ہوتے دیکھا ہے۔ تشدد آمیز، بہیمانہ حیوانی عمل میں مبتلا چلتی پھرتی لاشیں ایک دن میں وجود نہیں آئیں۔

ایک عہد ساز عورت | ٹونی موریسن

ٹونی نے اپنی ساری کہانیاں رنگ و نسل کے ظلم کی چکی میں پستے افریقین امریکی لوگوں کے گرد بنیں۔ انہوں نے سفید رنگ پہ غرور کرنے والوں کو آئینے میں ان کا اصل چہرہ دکھانے کی کوشش کی کہ سفید حقیقت کس قدر بدصورت ہوا کرتی ہے۔ ٹونی کی زندگی جدوجہد سے عبارت تھی۔ اکیلی ماں اور دو بچوں کا ساتھ، سارا دن مشقت میں گزر جاتا لیکن اندر سے اٹھنے والی آواز اس قدر شدید تھی کہ وہ صبح چار بجے اٹھ کے اپنی کہانیاں بنتی۔

آج سترہ اگست ہے۔۔ نئے گھر میں پہلی بار

بچپن سے ہی ہمارے گھر میں سترہ اگست بہت اہم رہا۔ پہلے ہم سب چودہ اگست کی تیاریوں میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیتے اور اس کے فوراً بعد ہماری پراسرار سرگرمیاں شروع ہو جاتیں۔ سب بہن بھائی سر جوڑ کے بیٹھے ہوتے، سرگوشیوں میں گفتگو ہوتی، کون کیا کرے گا؟ کا فیصلہ ہو رہا ہوتا۔

آزادی تو آج کے دن مل گئی تھی۔۔۔  رات کا جنگل اس کے بعد پھیلا

خواہشوں کی ایک طویل جنگ جس کا آغاز اس خطے سے ہوا، جہاں کے لوگ اس جدوجہد میں ہمارے ہمرکاب ہوئے، قربانیاں پیش کرنے میں پیچھے نہ رہے اور جب تھکے ہارے مسافروں نے منزل مراد پا لی، خوشیوں کی سرزمین ٹھکانہ بن گئی تو برسوں ساتھ چلنے والے ساتھی اجنبی بن کے رہ حیات میں ہم سے بچھڑ گئے اور وطن عزیز کے ٹکڑے کر کے ایک علیحدہ دیس بسا بیٹھے۔

عید قربان – سنت خلیل اللہ یا جنت میٹرو سروس

عید الضحی کے سلسلے میں دوستوں کی محفل تھی۔ جہاں ذکر تھا وطن عزیز میں عوام کے جوش وخروش کا اور قربانی کے لئے خریدے جانے والے جانوروں کا جن کی قیمت لاکھوں میں ادا کی جا رہی تھی۔ ہم یہ سب سن کر بہت حیران تھے کہ قربانی کا تصور تو بہت علامتی ہے اور بنیادی طور پہ خلیل اللہ کی اپنی اولاد سے محبت اور خالق کی اطاعت کا مظہر ہے۔

بلاول بیٹا۔۔۔ اپنی ماں کو شرمندہ مت کرو

کیا جملہ بول دیا تم نے

لڑنا ہے تو مردوں سے لڑو۔۔۔ یہی کہا نا تم نے؟

مغرب میں تعلیم پانے والے ایک مرد نے، اعلی تعلیم یافتہ اور کئی محاذوں پہ مردوں سے ہار نہ ماننے والی عورت کے اکلوتے سپوت نے

یہ تصویر دیکھو، تمہاری ماں نے مجھے تمغہ اعزاز پہنا کر میدان عمل میں اتارا تھا۔

نئی منزلوں کی پرواز پر پرندے اور خالی ہوتا گھونسلا

 ہماری اپنی اماں سے بہت بے تکلفی تھی۔ گھر میں ہلا گلا کرنے کے بھی ہم ہی شوقین تھے اور اماں کے بازاروں میں چکر لگانے میں ہم ہی ان کے ساتھی۔ آپا اور چھوٹی بہن سے اماں اس سلسلے میں مایوس ہی رہتیں۔ اور اب ہم انہیں چھوڑ کے جانے والے تھے پانچ سے چھ سال کے طویل عرصے کے لئے۔ اماں ایک ٹھنڈی سانس بھرتیں اور کہتیں ‘اب گئی تو ہمیشہ کے لئے گئی’ کہ پڑھائی کے بعد تو لڑکیاں ویسے ہی رخصت ہو جایا کرتی ہیں۔ آپا کی صورت حال ان کے سامنے تھی جو پڑھائی کے فوراَ بعد سسرال سدھار گئی تھیں۔ (اماں صحیح سمجھی تھیں میڈیکل کالج سے فراغت کے ٹھیک تین ماہ بعد ہماری شادی ہو گئی تھی۔)

نیاگرا آبشار کے سائے میں

نیاگرا واٹر فالز قدرت کا ایک ایسا تحفہ جو ہزاروں سال پہلے وجود میں آیا اور یہ امریکہ اور کینیڈا کی سرحد پہ تین آبشاروں کا مجموعہ ہے۔ سب سے بڑی ہارس شو دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کا کام دیتی ہے۔ باقی دو، امریکن آبشار اور برائڈل ویل آبشار امریکی علاقے میں آتی ہیں۔ لونا اور گوٹ نامی جزیرے تینوں آبشاروں کو علیحدہ کرتے ہیں۔ ان آبشاروں کی اونچائی پچاس میٹر ہے اور روزانہ چھ ملین کیوبک فٹ پانی ان سے گرتا ہے۔

زخم زخم عورتیں مسکراتی ہیں ۔۔۔ نیل کرائیاں نیلکاں

صاحباں نے عشق کے مجازی زخموں کا دکھ بیان کیا تھا۔ محبت کرنے والی عورت نے یہ تو نہیں سوچا تھا کہ اکیسویں صدی میں بھی محبت اسے ایسے نشان دے گی جنہیں وہ زمانے کے سامنے رکھے تو رسوا ہو اور اپنے اندر چھپا لے تو مر جائے۔ یہ کیسی محبت ہے کہ نہ نین وکیل بنتے ہیں اور نہ دل سے اپیل کی جا سکتی ہے۔