|

ہمارے زمینی پڑاؤ کی جھلکیاں – وٹنی میوزیم آف امریکن آرٹ میں

یہ میوزیم ان آرٹسٹوں کا کام نمائش پہ لگاتا ہے جو ابھی اس دنیا میں موجود ہیں اور بے رحم زندگی کا گلہ لے کے چپ چاپ اگلے جہان نہیں چلے گئے

یہ آئیڈیا سوچا ایک خاتون مجسمہ ساز گرٹروڈ وینڈربلٹ وٹنی نے انیس سو سات میں، جب اس نے محسوس کیا کہ نئے فنکار اپنا کام پیش کرنے اور بیچنے میں ناکام رہتے ہیں۔

انیس سو چودہ میں گرٹروڈ نے وٹنی سٹوڈیو کے نام سے نئے فنکاروں کے کام کی نمائش کرنا شروع کی جو بہت بڑی مستند جگہوں پہ قبول نہیں کیا گیا تھا۔

ہنسی اور پھنسی

چونکہ ڈاکٹر تھے اور بہت سی سائنس پڑھ رکھی تھی سواب ہم یہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ کھل کے ہنسنے سے تو بہت سی آکسیجن جسم میں جا کر دل و دماغ کو فرحت بخشتی ہے اس سے دل کیسے مردہ ہو گا؟

سیدہ زینب سلام اللہ علیہا سے سیکھنے کی ضرورت

اے یزيد اگر چہ حادثات زمانہ نے ہمیں اس موڑ پر لا کھڑا کیا ہے اور مجھے قیدی بنایا گیا ہے لیکن جان لے میرے نزدیک تیری طاقت کچھ بھی نہیں ہے۔ خدا کی قسم، خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتی اس کے سوا کسی اور سے گلہ و شکوہ بھی نہیں کروں گی۔ اے یزید مکر و حیلے کے ذریعہ تو ہم لوگوں سے جتنی دشمنی کر سکتا ہے کر لے۔ ہم اہل بیت پیغمبر (ص) سے دشمنی کے لیے تو جتنی بھی سازشیں کر سکتا ہے کر لے لیکن خدا کی قسم تو ہمارے نام کو لوگوں کے دل و ذہن اور تاریخ سے نہیں مٹا سکتا اور چراغ وحی کو نہیں بجھا سکتا تو ہماری حیات اور ہمارے افتخارات کو نہیں مٹا سکتا اور اسی طرح تو اپنے دامن پر لگے ننگ و عار کے بدنما داغ کو بھی نہیں دھوسکتا، خدا کی نفرین و لعنت ہو ظالموں اور ستمگروں پر۔

عورت کا اپنا آسمان

ہمیں یہ نہیں معلوم کہ معاشرے کے چلن کے برعکس وہ عورتوں کے حقوق اور آذادی کے اتنے شدید حامی کیسے اور کب ہوئے لیکن بقول اماں کے کچھ تو شروع سے ہی زمین نم تھی کہ انہیں پڑھی لکھی اور با اعتماد عورت سے مکالمہ کرنا اچھا لگتا تھا جس کے پاس مرد کی آنکھ میں آنکھ ڈال کے جواب دینے کا حوصلہ ہو اور جو کسی استحصال کا شکار نہ ہو۔

بھیگے پروں والی چڑیا، ہماری بیٹیاں اور مشرق کی جھوٹی تقدیس کے منافق دیوتا

پورن ویب سائٹس کو ذمہ دار ٹھہرانے والوں کے باپ وی سی آر کو خرابی کی بنیاد سمجھتے تھے۔ چوری چھپے وی سی آر دیکھنے والوں کے باپ اور چچا ٹیلی ویژن کے لتے لیتے تھے۔ ٹیلی ویژن کی اسکرین کے لئے گھر کی چھت پر بالٹیاں لٹکانے والوں کے بزرگ سنیما کو گالیاں دیتے تھے۔ مان کیوں نہیں لیتے؟ تخم ایک ہی ہے اور انکار کی زمین سے اٹھا ہے۔ ایجاد کو روتے ہو، اپنی نارسائی کا نوحہ پڑھا کرو۔

فرشتہ ہو یا زینب – یہ سب تمہاری حاکمیت کا تاوان ہے

جب ہر طرف تعلیم دی جائے کہ اللہ کی طرف سے مرد برتر ہے اور اس کی خدمت کے لیے ایک بےچاری مخلوق پیدا کی گئی ہے جس کو مرد جب چاہے، جہاں چاہے روند سکتا ہے، مسل کے پتی پتی کر سکتا ہے، عمر، رنگ روپ کی کوئی قید نہیں

اگست کی آسودہ دھوپ میں اوائل بہار کی چوتھائی صدی پرانی تصویر

مسافروں سے بھری ٹرین شام کے ملجگے اندھیرے میں دوڑتی جا رہی تھی، چھکا چھک، چھکا چھک

مرد، عورتیں، بچے، نوعمر لڑکے لڑکیاں، پھیری والے، گداگر، ٹکٹ چیکر کچھ منزل کے اشتیاق میں کھلے ہوئے، کچھ سفر کی تھکان کی اکتاہٹ لیے ہوئے، کچھ کتاب میں گم اور کچھ باہر دوڑتے ہوئے ہرے بھرے کھیتوں کی تراوٹ دل میں اتارتے ہوئے۔

نیا پاکستان- چلے ہوئے کارتوس  اور دھوپ میں رکھی بندوق

بہت برسوں سے ہم بیرون ملک رہنے والوں کو لگتا تھا کہ قیادت اور حواریوں میں جو فہم و فراست اور شعور کی کمی ہے، اس کی وجہ انہی پرانے کھلاڑیوں کا بار بار سٹیج پہ آنا ہے، نئے ڈرامے کے ساتھ۔ اور یہ پٹی ہمیں پڑھائی تھی اس لیڈر نے جس کی وطن دوستی اور وفاداری پہ ہمیں کوئی شبہ نہیں تھا۔

ماہم اور نانی اماں کے بیچ بھی ایک ماں پڑتی ہے

کچھ برسوں سے یہ چلن ہو چلا ہے کہ دنیا بھر میں کچھ دن مخصوص کیے جاتے ہیں کچھ ہستیوں کے نام اور اس دن خاص طور پہ ان کو یاد کیا جاتا ہے، تحفے دیے جاتے ہیں اور یہ بتایا جاتا ہے کہ اس شخص کا ہمارے دل میں کیا مقام ہے۔ آج کی دنیا کے بچوں کو یہ سب خوب بھاتا ہے۔

سکھر میں جنت بانٹنے والوں کا حملہ  

آج کی خبر ہے سکھر سے کہ رمضان میں لو لگ کے ہیٹ سٹروک ہونے والوں کی مدد کے لیے بنائے گئے پانی کے پانچ امدادی مراکز کو بندوق دکھا کر اور گولی کی دھمکی کے زور پہ بند کر دیا گیا، کہ یہ احترام رمضان کے منافی ہے۔