چالیس برس پہلے کا اکتوبر

چالیس برس پہلے کا اکتوبر

یہ اکتوبر 1983 ہے۔
میز پر رکھے کاغذات کل دوپہر ہی سر بمہر لفافے سے نکلے ہیں جو لاہور سے بھیجا گیا تھا۔ ابا نے لفافہ کھول کر ہماری طرف بڑھایا اور ہم نے چمکتی آنکھوں سے اسے تھاما تھا۔

بچے کا وزن کم کیوں ہے؟

بچے کا وزن کم کیوں ہے؟

32 ہفتے کی حاملہ عورت ڈاکٹر کے پاس گئی۔ اب ڈاکٹر کو اس کے پیٹ پر سے رحم کا سائز ناپنا ہے۔ پرانا طریقہ ہاتھ کی انگلیوں کی چوڑائی ہے جو ناف کے اوپر رکھ کر دیکھی جاتی تھیں۔ نیا طریقہ درزی کی انچ اور سینٹی میٹر والی ٹیپ ہے۔ بتیسویں ہفتے پر اگر 32 سینٹی میٹر اونچا رحم ہو تو اس سے اچھی کوئی بات نہیں۔ تھوڑا بہت مارجن دیا جا سکتا ہے۔ لیکن اگر 32 ہفتوں بعد رحم کی اونچائی 28 یا 36 سینٹی میٹر نکل آئے تو اب گائناکالوجسٹ کے کان کھڑے ہو جانے چاہئیں۔

دادا - امی کو مت مارو ۔ میں نے بدتمیزی کی - سو مار کھائی

دادا – امی کو مت مارو ۔ میں نے بدتمیزی کی – سو مار کھائی

کیا ہوتا اگر اس کی جگہ ہم ہوتے؟ کیا ہوتا اگر اس کی جگہ ہماری بیٹی ہوتی؟ کیا ہوتا اگر اس کی جگہ ہماری بہن ہوتی؟ کیا ہوتا اگر یہ ہماری ماں ہوتی اور ہم ان ننھے منوں میں شامل ہوتے جو بے قرار، بے چین اپنی ماں کو ایک شقی القلب شخص سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں جو ان بچوں کا دادا بھی ہے۔ دادا۔ کیسا پیارا لفظ ہے یہ۔ ابا کے ابا! ہم اپنے دادا دادی کو نہ دیکھ سکے، ابھی تک اس حسرت کو دل میں چھپائے بیٹھے ہیں اور سوچتے ہیں کہ اگر ابا ایسے تھے تو ابا کے ابا کیسے ہوں گے؟

کیا نکلا ویجائنل ڈلیوری کے اٹھارہ برس بعد
|

کیا نکلا ویجائنل ڈلیوری کے اٹھارہ برس بعد

بے ہوشی سے پہلے ہم ضرور کہتے ہیں لو جی ہم جا رہے ہیں۔ پھر ملیں گے۔ رب راکھا۔ ( ہو سکتا ہے پچھلے جنم میں ہم ٹرک ڈرائیور رہے ہوں ) ۔ خیر اس دن بھی ان ڈائیلاگز کے بعد رات اندھیری ہو گئی اور بتیاں بجھ گئیں۔

ہوش آیا تو ہم ہسپتال کے کمرے میں بستر پر دراز تھے۔ آپریشن کی تکلیف تھی لیکن وہ تو ہونی ہی تھی۔ دوسرے دن سر راؤنڈ پر آئے تو کافی سیریس نظر آئے۔ اس دن معمول سے کچھ زیادہ بات کی۔

!جب نارمل ڈلیوری میں مقعد پھٹ جاتا ہے
|

!جب نارمل ڈلیوری میں مقعد پھٹ جاتا ہے

سن کر کانوں سے دھواں نکلنے لگا، اوہ خدایا جن باتوں کی ابھی تک سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ یک دم مجسم ہو کر سامنے کھڑی ہو گئیں۔ ویجائنل ڈلیوری میں مقعد کو پہنچنے والے نقصان پہ سلطان کا پہلا ریسرچ پیپر 1993 میں چھپا اور ہماری ویجائنل ڈلیوری بھی اسی برس ہوئی۔ ہائے ٹوٹی کہاں کمند۔ سلطان نے پچھلے تیس برس میں مقعد اور ویجائنل ڈلیوری پر سو سے اوپر ریسرچ پیپرز لکھ ڈالے ہیں، کتابیں چھپ چکی ہے، سی ڈی دستیاب ہے، دنیا بھر سے ٹرینیز ان کی ورکشاپ اٹینڈ کرتے ہیں غرض سلطان مقعد کو پہنچنے والے نقصان پہ بات کرنے کی اتھارٹی ہیں۔

آپریشن کروانا ہے مگر کس سے؟
|

آپریشن کروانا ہے مگر کس سے؟

دو ہزار ایک کا راولپنڈی۔ ہماری اور شوہر کی پوسٹنگ گوجرانوالہ ہو چکی تھی۔ نشتر ہسپتال سے سپیشلائزیشن کی ٹریننگ ختم کرنے کے بعد اب ہمیں امتحان دینا تھا۔ احمد نگر چٹھہ کے ہیلتھ سینٹر پہ کام کرنے کے ساتھ ساتھ ہم پڑھائی میں بھی مصروف تھے۔ دوسرا بچہ بھی انہی دنوں پیدا کیا تھا۔ سپیشلائزیشن کے امتحان کے دو درجے ہوتے ہیں پہلا تحریری دوسرا زبانی۔ اگر تحریری پاس کر لیا جائے تو زبانی کا موقع ملتا ہے جس میں اصل مریض بلائے جاتے ہیں۔ مریض کا معائنہ ممتحن کی موجودگی میں کیا جاتا ہے اور پھر مریض کے متعلق سوال و جواب کیے جاتے ہیں۔

ویجائنا کا چھوٹا آپریشن، بڑا کیسے ہو گیا؟

ویجائنا کا چھوٹا آپریشن، بڑا کیسے ہو گیا؟

ہماری صاحبزادی دنیا میں تشریف لا چکی تھی، مبارک سلامت کا شور تھا۔ دوست، رشتے دار، نانی، دادی سب نہال مگر ماں نہ جانے کیوں منہ سر لپیٹے نڈھال پڑی تھی۔ نہ بچی دیکھنے کا چاؤ، نہ گپ شپ، نہ بھوک نہ پیاس۔ ڈلیوری کہنے کو نارمل یا ویجائنل تھی لیکن دوسری سٹیج میں بچی کا سر سٹیل کے بنے دو بڑے چمچوں نما اوزار (forceps) کی مدد سے نکالا گیا تھا۔ چھوٹا آپریشن بھی ہوا تھا جس میں شدید تکلیف تھی۔

ویجائنا یا پتھر کی دیوار؟ کیا کریں؟

ویجائنا یا پتھر کی دیوار؟ کیا کریں؟

نوجوان جوڑا کلینک میں داخل ہوتا ہے۔ نئے شادی شدہ نظر آتے ہیں لیکن دونوں کا چہرہ بجھا بجھا سا۔ ہم سامنے بٹھا کر ادھر ادھر کی بات کرنے کے بعد آنے کا مقصد پوچھتے ہیں۔ دونوں کچھ دیر خاموش رہتے ہیں۔ آخر شوہر ہمت کرتا ہے۔ وہ ڈاکٹر صاحب، بہت پرابلم ہے۔ یہ۔ ۔ ۔ یہ۔ ۔ ۔ جی، جی کہیے؟ جی، اصل میں ہماری شادی کو ڈیڑھ مہینہ ہوا ہے لیکن ابھی تک ہم کچھ۔ میرا مطلب ہے، ازدواجی تعلق۔

اندلس اجنبی نہیں تھا - چوتھی قسط
|

اندلس اجنبی نہیں تھا – چوتھی قسط

جہاز سے باہر نکلے تو وہی سب کچھ تھا جو ائرپورٹ پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ سکیورٹی، وہیل چئیرز، بیگج بیلٹس، ادھر سے ادھر بھاگتے مسافر، کچھ کو اگلا جہاز چھوٹنے کی فکر، کچھ امیگریشن سے خوفزدہ۔ کچھ دیر تو سائن بورڈز کے سہارے چلے پھر سوچا پوچھ ہی لوں کہ کس اوکھلی میں سر دینا ہے؟ ایک صاحب سے پوچھا تو کہنے لگے، بی بی اگلے جہاز میں گھسنے سے پہلے امیگریشن کے حساب کتاب سے تو گزرو۔ امیگریشن ہمیشہ پل صراط کا سا منظر پیش کرتی ہے۔ ہر کسی کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہوتی ہیں۔ یہ درشت چہرے والا کوتوال جو ہر کسی کو کٹہرے میں کھڑا کیے سوال جواب کیے جاتا ہے ، جانے داخلے کی مہر لگائے گا یا واپسی کی راہ دکھائے گا۔ ہم تو عادی مجرم ہیں زمانوں سے سو لگ گئے لائن میں۔

بزنس کلاس؟ ایہہ میں کتھے آ گئی؟ قسط نمبر تین
|

بزنس کلاس؟ ایہہ میں کتھے آ گئی؟ قسط نمبر تین

بزنس کلاس کا بورڈنگ ہاتھ میں پکڑ کر گردن تھوڑی سی تن گئی تھی اور ہم باقی سب مسافروں کو نخوت سے دیکھ رہے تھے۔ سکیورٹی سے گزرنے لگے تو اس نے کہا آپ کے ذمے کچھ قرض واجب الادا ہے، پہلے وہ تو ادا کر دیجیے۔ ہائیں بھیا کب قرض لیا ہم نے تم سے؟ قرض۔ مطلب ٹریفک چالان۔ بیڑا غرق ہو ہمارے دائیں پاؤں کا۔ جب ایکسلیٹر سے گلے ملتا ہے تو ایسی گھٹ کے جپھی ڈالتا ہے کہ گاڑی ایک سو چالیس پہ دوڑنے لگتی ہے۔ ایک سو پینتیس کی سپیڈ پہ سڑک پہ لگے کیمرے کو آپ خوبصورت لگنے لگتے ہیں اور وہ ٹھک سے تصویر کھینچ لیتا ہے۔ ایک تصویر کی قیمت ہے دس ریال یعنی مبلغ ساڑھے سات ہزار پاکستانی روپے۔ اس بار ہماری دو تصویریں کھنچی تھیں سو بیس ریال ادا کیے اور ہمارا قرض ادا ہوا۔