محترمہ زیبا شہزاد کی مرد نوازی

دل باغ باغ ہے اور ایک فخر کا احساس بھی ہے کہ ہم گنہگاروں کے قبیلے میں کوئی تو پوتر نکلا
کسی نے تو ہم مادر پدر آزاد عورتوں کا پردہ چاک کر کے معاشرے کے مظلوموں کو ہماری اصلیت دکھائی
یقیناً آج کہیں پہ شادیانے ہوں گے اور کہیں مٹھائیاں ! اور مظلومین شاداں و فرحاں کہہ رہے ہوں گے کہ دیکھا مقابلہ کرنے چلی تھیں ہم سے، اپنوں کے ہاتھوں ہی ڈسی گئیں
” دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف۔ ۔ ۔ اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی “
محترمہ زیبا شہزاد کی عقل و دانش میں مجھے کوئی شبہ نہیں اور دماغی صحت بھی ٹھیک ہی ہو گی تبھی تو علم وفضل کے دریا بہہ رہے ہیں۔
ویسے ایک موہوم سا شک ہے کہ کہیں نقاب کے پیچھے مظلوم کیمپ کی ہی شرارت تو نہیں۔ (کافی مظلوموں کو بھیس بدلنے کا شوق ہوا کرتا ہے)۔
تبھی تو معاشرے کی پچاس فیصد عورتوں کو بیک جنبش قلم بے حیا، بے وفا اور فاحشه قرار دیا گیا ہے۔
ہم بھرپور احتجاج کرتے ہیں جناب یا جنابہ
ارے ٹھہریے! آپ کی داستان گوئی نے ہمیں متزلزل کر دیا۔ ہمیں کچھ شبہ سا ہو رہا ہے اپنی صنف پہ۔ ہو سکتا ہے بات کچھ ویسی ہی ہو، جیسی بیان کی گئی ہے۔ ہمارے پاس فاحشہ عورتوں کی بہت سی کہانیاں ہیں۔
چلئے محترمہ کی ظالم نگاہ سے دیکھتے ہیں
جب عورت قرآن سے بیاہ دی جاتی ہے
ارے نا سمجھو ! آپ شکر کیوں نہیں ادا کرتے۔ اتنا بڑا مقام ملا، دنیا اور آخرت سنور گئی۔ اب کسی منحوس آدمی سے بھلا کیا ملتا بیاہ رچا کے!
جب عورت کاری کی جاتی ہے
اب دیکھئے نا کسی بھولے بھالے کو بہلا پھسلا کر نئی منزلوں کو نکل جانا! کتنی بری بات ہے ماں کے لاڈلے کا یہ حال کرنا، تو پھر کچھ سزا تو بنتی ہی ہے نا
جب عورت ونی کی جاتی ہے!
اب اپنے بھائی باپ کا کھا کے( جیسا کہ محترمہ کا کہنا ہے) ان کے نیک کاموں میں تھوڑا ساتھ دے دیا جائے تو کیا غم؟ آخر اسی دن کے لئے تو عورت کو چھت اور روٹی مہیا کی گئی تھی اور پھر لاوارث تھوڑی چھوڑا، ایک اور چھت اور روٹی کے انتظام کے ساتھ ایک اور سرپرست کے پاس ہی بھیجا نا! یہ بھی شکر کا مقام ہے
جب عورت ریپ ہوتی ہے
نا بی بی، اب ایسا بھی اندھیر نہ مچاؤ۔ کچھ نہ کچھ تو تمہاری بھی مرضی ہو گی نا۔ کچھ خطوط کا تبادلہ، کچھ نظروں کے پیام۔ اب وہ تھوڑا کھل کھیلا تو اس میں اس کا کیا دوش ؟
جب عورت کے منہ پہ تیزاب پھینکا جاتا ہے
اوہ بھائی ، کئی فائدے ہیں اس میں۔ میک اپ کی ضرورت نہیں پڑے گی ، آئینہ نہیں دیکھنا پڑے گا اور پھر گھر کے کاموں میں دل بھی لگا رہے گا۔ شوہر ویسے بھی چہرہ کہاں دیکھتے ہیں؟
جب عورت چولہا پھٹنے سے مر جاتی ہے
اب عورت جہیز میں اپنا چولہا تو لائی نہیں اور اس پھوہڑ کو شوہر اور سسرال کے گھر کا قیمتی چولہا استعمال نہیں کرنا آیا اور جل گئی تو اس میں ان بےچاروں کا کیا قصور ؟ ایسے ہی فضول میں معصوم شوہر پہ شک
کمسن بچی کی شادی پچاس سالہ مرد سے!
لو اور سنو! بھئی اچھا ہے نا۔ بچی باپ کو یاد کر کے روئے گی نہیں، دن میں باپ کی شفقت اور رات میں… ایک ٹکٹ میں دو مزے
لڑکی دن دہاڑے اغوا ہو جاتی ہے
اب یہ لوٹھا کی لوٹھا باہر کدکڑے لگاتی پھریں گی تو سمجھانے کے لئے مظلوم مرد ہی آئیں گے نا! اور دیکھئے اچھی طرح تفصیل سے سمجھا بجھا کے آخر گھر تک بھی تو چھوڑ جاتے ہیں نا مظلوم مرد
عورت کو سر عام ننگا گھمایا جاتا ہے
اوہ، ویسے تو زمانہ قدیم کی بہت مثالیں دی جاتی ہیں اب اگر کسی نے اس زمانے کے فیشن سے (جب لباس کی سہولت میسر نہ تھی) کسی عورت کو متعارف کروا ہی دیا تو اس میں اتنا کیا واویلا
عورت غیرت کے نام پہ مار دی جاتی ہے
دیکھئے اب ایک چیز ہوتی ہے باپ اور بھائی کا شملہ! اب کیا عورت کو اچھا لگے گا کہ برادری میں شملہ نیچے ہو، اتنی قربانی تو بنتی ہے نا
عورت کو کرنٹ لگا کے جنسی اذیت دی جاتی ہے!
اب عورت مرد کی ملکیت ہی تو ہے تو جیسے مرضی روندا جائے۔ ویسے کرنٹ تو کوئی بڑی بات نہیں، کپڑے استری کرتے ہوئے کئ دفعہ کرنٹ لگ جاتی ہے اب اس میں کیا اتنا شور مچانا
عورت کو جائداد میں حصہ نہیں ملتا!
ارے پاگل عورت ! کیا کرے گی ڈیڑھ اینٹ کی علیحدہ مسجد بنا کے؟ تجھے سر پہ چھت، تن پہ کپڑا (بوقت ضرورت) اور دو وقت کی روٹی ہی تو چاہیے وہ تو مظلوم مرد دیتا ہی ہے اپنی سلطنت نگری میں
عورت کو حق مہر اور نان نفقہ نہیں ملتا
اب عورت کو اتنا بھی مال پرست نہیں ہونا چاہئے۔ گھر کی ملکہ تو بنا دیتا ہے اور دو وقت کی روٹی بھی کھلا دیتا ہے چھوڑو یہ فضول کے نخرے!
لڑکی کو گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں ملتی!
اب بات کچھ یوں ہے کہ ہمارے ملک کی دھوپ بہت تیز ہے۔ لڑکی باہر نکلے گی ، رنگ روپ میلا ہو گا۔ پھر رشتہ بھی نہیں ملے گا اور فیر اینڈ لولی کا خرچہ علیحدہ ! اور پھر لوگ نظر بھی تو لگا دیتے ہیں
لڑکی کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں ہوتی!
خواہ مخواہ موئی عینک لگوائی جائے کتابیں پڑھ پڑھ کے۔ خوبصورت آنکھوں پہ چشمہ لگ گیا تو ظلم تو ہو گا نا۔ آخر لوگ ہماری آنکھیں ہی تو دیکھتے ہیں
اور وہ جو قبل اسلام بچیاں زندہ مٹی میں دفن کی جاتی تھیں
ارے بھئی روتی بہت تھیں اور گھر کے مظلوم مردوں کی نیند میں خلل پڑتا تھا! (ویسے آپس کی بات ہے۔ دفن تو آج بھی کی جاتی ہیں رسم ورواج کے ملبے تلے)
وہ تمام عورتیں جو روزانہ کی بنیاد پہ پٹتی ہیں!
اب جانے بھی دو! وہ تو ان کی طبیعت میں اضطرار پیدا کرنے کے لئے بہت ضروری ہے۔ کچھ ان کو بھی شوق ہوتا ہے شوہر کی پیار بھری گالیاں سننے اور ضربیں کھانے کا
دیکھا نہیں مار پیٹ کے بعد شوہر باہر قلفی کھلانے لے جاتا ہے۔ بالکل اس جانور کی طرح جو نکیل ڈالتے ہوئے شور کرے تو چھمک کی ضرب کے بعد چارہ بھی دیا جاتا ہے، آخر دودھ تو دوہنا ہی ہوتا ہے نا
اب چونکہ ہم ڈاکٹر ہیں اور تشخیص کی عادت پڑ چکی ہے۔ سو عادت سے مجبور ہو کے سوچنا شروع کیا کہ آخر ماجرا کیا ہے؟
معلوم ہوا کہ یہ تحریر Himpathy کے رویے کی عکاسی کر رہی ہے۔
آپ sympathy اور empathy کے بارے میں تو جانتے ہی ہوں گے۔ sympathy ہمدردی کا نام ہے اور empathy وہ ہمدردی جو کسی دوسرے کے خیالات و جذبات کو اپنے پہ طاری کر کے محسوس کی جائے۔
لیکن اب کورنل یونیورسٹی کی فلاسفر پروفیسر کیٹ (Kate A. Manne) نے himpathy کی ٹرم متعارف کرائی ہے۔
” یہ وہ ناجائز اور بے حقیقت ہمدردی ہے جو مزاجونسٹ (Misogynist) مردوں کو عورت پہ ہر طرح کا ظلم ڈھانے کے باوجود دی جاتی ہے “
پدرسری معاشرے کا بدصورت سچ جہاں مرد کسی بھی صورت حال سے بری الزمہ اور عورت ہر حال میں گھٹیا قصور وار اور مجرم!
جب بھی عورت اور مرد کا معاملہ ہو، بے شمار لوگ مرد کا قصور جاننے کے باوجود اسے بے چارہ قرار دیتے ہیں۔
“ بس غلطی ہو گئی بے چارے سے”
“ دیکھو کتنا شرمندہ ہے اب اور کیا کرے “
“ اب مرد تو یہ کیا ہی کرتے ہیں”
“جوانی کا جوش ہے بھئی”
“ مرد کو تو سات خون معاف ہیں”
“وہ بچوں سے دوری کا مستحق نہیں، اب اتنا بڑا قصور بھی نہیں اس کا”
عورت کی آواز تو تب ہی نقار خانے میں طوطی کی آواز بن جاتی ہے جب مرد کے مفادات پہ ضرب آنے لگتی ہے۔ اس سارے سسٹم میں عورت کے استحصال کے ذمہ دار مرد کے لئے صرف اتنی سزا کافی سمجھی جاتی ہے کہ اس کا چہرہ بے نقاب ہو گیا اور اس کی عزت پہ کچھ لوگوں کے درمیان حرف آیا۔ عورت کے ساتھ کیا گزری؟ ‏Himpathy  کے متوالے یہ جاننے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اور ان متوالوں میں عورتوں کی کوئی کمی نہیں۔
عورت کا پدرسری سسٹم سے جنگ کرنا جلتے انگاروں کے مترادف ہوا کرتا ہے اور یہ ایقان ہر عورت کے حصے میں نہیں آتا۔
 معاشرے کی تھپکی لے کے خوش ہوجانے والیوں کو عافیت اسی میں نظر آتی ہے کہ طاقتور کی نظر کرم میں رہا جائے، اپنی ہی صنف پہ کیچڑ اچھال کے اچھی عورت ہونے کا میڈل حاصل کیا جائے۔ معاشرے میں مرد کی آشیرباد سے ملنے والی سوشل کرنسی سے اپنے آپ کو بھاری دکھایا جائے، چاہے اندر کی آواز سب زنجیریں توڑ دینے کا ہی کیوں نہ کہتی ہو۔
 اپنے حق کے لئے آواز اٹھانے والی عورت سر پہ چھت اور دو وقت کی روٹی کے جھانسے میں نہیں آتی۔ پر کٹی چڑیا بن کے پنجرے میں چوری کھانے سے بہتر ہے اپنے پروں کی پرواز کو آزمایا جائے۔ دانے دنکے کا کیا فکر ؟
آزادی صرف فحاشی اور آوارہ پن کا نام نہیں، کئی اور نام بھی ہیں آزادی کے۔
تعلیم حاصل کرنے کی آزادی، معاشی خوشحالی حاصل کرنے کی آزادی، اپنی مرضی سے شادی کرنے کی آزادی، بچے پیدا کرنے کی آزادی، ساس سسر کا محکوم نہ بننے کی آزادی، طلاق کے حق کی آزادی، جائیداد میں حصے کی آزادی، اپنی رائے کی آزادی اور اپنی زندگی پہ اپنے اختیار کی آزادی
کیا اس آزادی میں ایسا کچھ ہے جو بنیادی انسانی تعلیمات اور اسلامی تعلیمات کے منافی ہو؟
1956  میں ایک فلم ‘مائی فئیر لیڈی ‘ میں ایک گیت شامل تھا۔ عورت تب بھی سر عام سنگسار کی جاتی تھی اور آج بھی پتھر پھینکنے والوں کی کمی نہیں۔ سو اس گیت کو ‏Himpathy  کا تمغہ پہننے والیوں کے نام سمجھیے
 ‏Women are irrational
‏that’s all there is to that
‏Their heads are full of cotton, hay, and rags
‏They’re nothing but exasperating, irritating,
‏vacillating, calculating, agitating,
‏Maddening and infuriating
‏hags
ترجمہ:
(عورتوں میں عقل کہاں
بات اتنی ہے کہ
ان کے کھوپڑی میں روئی، بھوسہ اور چیتھڑے ٹھنسے ہیں
مصیبت ہیں، ایک عذاب ہیں عورتیں
گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشہ
چلتر اور فسادی
لہو کھولتا ہے انہیں دیکھ کے
چڑیلیں ہیں یہ عورتیں)

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *