Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
مجھے ڈھانپ دو کہ تمہارا ایمان متزلزل ہو جاتا ہے
تم مت کرنا آنکھیں نیچے، تم مت روکنا اپنی ہوس، تم مت قابو کرنا اپنی نفسانی خواہشات، تم مت بند کرنا مجھے دیکھ کے کھجانا، تم مت چھوڑنا اپنا تکیہ کلام ، ماں دی اور پیں دی، تم مت بند کرنا جنسی لطیفے سنانا اور سننا، تم مت چھوڑنا پورن فلمیں دیکھنا۔
!الفاظ، زبان، اعضا، شرم و حیا، فحاشی اور غیرت و مردانگی
ان اعضا کے ناموں کا استعمال جو کچھ کے لیے شہوت انگیز، کچھ کے لیے منہ سے نہ صرف گرتی رال بلکہ ہر جسم کو محض جنسی آلہ سمجھ کر ”گل افشانی“ کا سبب بھی بن سکتا ہے لیکن اگر مذکورہ حال میں ان اعضا کی ایک جھلک انہیں دکھا دی جائے تو؟ کیا ان مٹی ہوتے جسموں سے بھی وہ اسی طرح حظ اٹھائیں گے؟
کیا عورت ہی عورت کی دشمن ہے؟
عورت کی ازدواجی زندگی چودہ سے چوبیس برس کے بیچ شروع ہوتی ہے۔ ایک ایسی زندگی جس میں توقعات اور ذمہ داریوں کے بھاری بوجھ کے ساتھ حقوق سب سے کم۔ دونوں طرف کے خاندان اسے بار بار یہ یاددہانی کرواتے ہیں کہ اگر بسنا ہے تو اپنے حقوق کی بات کبھی نہ کرنا۔ ماں باپ واپسی کا دروازہ بند کر کے بھیجتے ہیں اور شوہر/ سسرال بات بات پہ اپنے گھر سے نکالنے کی دھمکی۔
اندلس اجنبی نہیں تھا – چوتھی قسط
جہاز سے باہر نکلے تو وہی سب کچھ تھا جو ائرپورٹ پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ سکیورٹی، وہیل چئیرز، بیگج بیلٹس، ادھر سے ادھر بھاگتے مسافر، کچھ کو اگلا جہاز چھوٹنے کی فکر، کچھ امیگریشن سے خوفزدہ۔ کچھ دیر تو سائن بورڈز کے سہارے چلے پھر سوچا پوچھ ہی لوں کہ کس اوکھلی میں سر دینا ہے؟ ایک صاحب سے پوچھا تو کہنے لگے، بی بی اگلے جہاز میں گھسنے سے پہلے امیگریشن کے حساب کتاب سے تو گزرو۔ امیگریشن ہمیشہ پل صراط کا سا منظر پیش کرتی ہے۔ ہر کسی کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہوتی ہیں۔ یہ درشت چہرے والا کوتوال جو ہر کسی کو کٹہرے میں کھڑا کیے سوال جواب کیے جاتا ہے ، جانے داخلے کی مہر لگائے گا یا واپسی کی راہ دکھائے گا۔ ہم تو عادی مجرم ہیں زمانوں سے سو لگ گئے لائن میں۔
نہ جانے، کوئی نہ جانے؟
ساتھ کھڑی نرس اگر پشپا ہو تو راجیش کھنہ کی یاد تو آئے گی نا۔ جب وہ اپنی ہیروئن کو انتہائی رومانوی انداز اور گہری آواز میں مخاطب کرتے ہوئے کہتا پشپا، تو ہال میں بیٹھی فلم دیکھنے والی سب پشپاؤں کا دل تو دھڑکنا بھول جاتا ہو گانا۔ یہی سوچ کر دل لگی پر من اتر آتا ہے، آواز کو گہری بناتے ہوئے کہتی ہوں، پشپا ذرا قینچی تو پکڑانا جس سے وہ بے اختیار شرما جاتی ہے، جانتے ہوئے بھی کہ وہ کہیں نہیں ہے یہ اس کی آواز کی پرچھائیں ہے۔
!فاصلہ رکھ مگر پیار سے
ہر انسان کا ایک دائرہ ہوتا ہے اور اس دائرے کے اندر کسی کو بھی جھانکنے کی اجازت نہیں۔ جی کسی کو بھی۔ خونی رشتے بھی اس فہرست میں شامل، اس وقت تک جب کوئی خود دائرے کے اندر آنے کی اجازت دے۔ دوسروں کو اپنی باؤنڈری میں داخل ہونے سے کیسے روکا جائے، یہ ہر کسی کو سیکھنا ہے۔