
Works as senior consultant Gynecologists at MOH , Oman .
Before she served in Pakistan rural and urban areas for 18 years .
She has published 6 books .
She writes about social issues on Hum sub , Dawn and DW .
She writes poetry in Punjabi and gets published in Puncham Punjabi magazine .
Her literary Critique is published in Swera.
Similar Posts
میری امی، پیاری امی
امی بہت شاندار عورت تھیں، زندگی کی حرارت سے بھرپور، بہت شوقین مزاج۔ انھوں نے زندگی کو بھرپور جیا اور کیا خوب جیا۔ اور میں نے ایسی خوب صورت شخصیت کو قطرہ قطرہ پگھل کر تحلیل ہوتے دیکھا، ان کی طبعی موت تو جنوری میں ہوئی مگر اصل میں وہ ہم سے کئی سال پہلے جدا ہو چکی تھیں

!منٹو کی شاداں اور اکیسویں صدی کی لڑکی
عدالت ہمیشہ گواہ مانگتی ہے۔ مظلوم سے ظلم کا ثبوت۔ لائی ہوں گواہ بھی اور ثبوت بھی۔ جی جی ساتھ ہیں دونوں۔ دیکھنا پسند فرمائیں گے بندی کا کٹا پھٹا مضروب جسم۔ دس طویل برس، جنسی تشدد، پانچ برس کی بچی سے پندرہ برس کی لڑکی تک کا سفر۔
آج سترہ اگست ہے۔۔ نئے گھر میں پہلی بار
بچپن سے ہی ہمارے گھر میں سترہ اگست بہت اہم رہا۔ پہلے ہم سب چودہ اگست کی تیاریوں میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیتے اور اس کے فوراً بعد ہماری پراسرار سرگرمیاں شروع ہو جاتیں۔ سب بہن بھائی سر جوڑ کے بیٹھے ہوتے، سرگوشیوں میں گفتگو ہوتی، کون کیا کرے گا؟ کا فیصلہ ہو رہا ہوتا۔
اماں میری شادی پنجابی مرد سے مت کرنا
آزادی کے اس قدر قائل کہ گھر میں کسی کتاب، کسی رسالے پر کوئی پابندی نہ تھی، اردو ڈائجسٹ، سیارہ ڈائجسٹ ماہانہ آتے اور گھر کا ہر فرد انہیں پڑھنے کے لئے آزاد، ابن صفی کے ناول وہ دفتر کی لائبریری سے لے کر آتے تو ان سے پہلے ہم پڑھتے۔ سکول میں جب میں بتاتی کہ میرے ابا ہمیں خود ناول لاکر دیتے ہیں تو وہ لڑلیاں جو کتابوں میں یا باتھ روم میں چھپاکر پڑھتیں وہ ہمیں کسی اورسیارے کی مخلوق سمجھتیں۔
حدیقہ کیانی نے زندگی کو برسوں میں ناپنا نہیں سیکھا
حدیقہ کو ہم اس کے بچپن کے ان دنوں سے جانتے ہیں جب وہ اپنی بڑی بہن عارفہ اور بھائی عرفان کے ساتھ لیاقت میموریل ہال راولپنڈی میں موسیقی کے مقابلوں میں حصہ لیا کرتی تھیں۔ ہم تقریری مقابلوں کے شیر ہوا کرتے تھے۔ ان دنوں بھی ان کی آواز کا سوز نشاندہی کرتا تھا کہ ان کی منزل بہت آگے ہے۔ ان کا دوسرا پڑاؤ لاہور ٹی وی تھا اور پھر اتفاق دیکھیے کہ ہم اس پروگرام کے میزبان تھے۔ حدیقہ نے زینہ بہ زینہ شہرت کی کامیابیاں سمیٹیں اور آج اس کے دامن میں اتنا کچھ ہے کہ اسے کسی بھی نام سے پکارا جائے، گلاب گلاب ہی رہے گا۔
اگست کی آسودہ دھوپ میں اوائل بہار کی چوتھائی صدی پرانی تصویر
مسافروں سے بھری ٹرین شام کے ملجگے اندھیرے میں دوڑتی جا رہی تھی، چھکا چھک، چھکا چھک
مرد، عورتیں، بچے، نوعمر لڑکے لڑکیاں، پھیری والے، گداگر، ٹکٹ چیکر کچھ منزل کے اشتیاق میں کھلے ہوئے، کچھ سفر کی تھکان کی اکتاہٹ لیے ہوئے، کچھ کتاب میں گم اور کچھ باہر دوڑتے ہوئے ہرے بھرے کھیتوں کی تراوٹ دل میں اتارتے ہوئے۔