مجھے ماہواری چاہیے
|

مجھے ماہواری چاہیے

اڑی اڑی رنگت، پیشانی پہ پسینے کے قطرے، چہرے پہ اضطراب، فربہی مائل جسم، پچاس پچپن کا سن
ڈاکٹر صاحب، جس وقت کی خواہش میں دن گن گن کر گزارے تھے وہی عذاب بن چکا ہے۔ خدا کے لئے اسے واپس لے آئیے
یا خدا یہ کس کو ڈھونڈنے کا کام ہمیں دیا جا رہا ہے۔ مانو کہ ہمیں شر لاک ہومز بھی پسند تھا اور عمران بھی لیکن سراغ رسانی کی کسی مہم سے ہمارا دور دور تک تعلق نہیں رہا پھر یہ کیا کہہ رہی ہیں ہمیں؟
”کسے واپس لے آؤں؟“ ہم نے آنکھیں پھیلا کر کہا۔
”وہ جی ماہواری کو“
ہت تیرے کی، یعنی کہ ماہواری کی تلاش۔ آپ ٹھیک طرح بتائیے کہ کیا کہنا چاہتی ہیں؟ زیر لب بڑبڑاتے ہوئے ہم نے کہا۔
ڈاکٹر صاحب، بہت برسوں سے ماہواری کی مصیبت جھیل رہی تھی۔ کبھی خون اتنا زیادہ آتا تھا کہ کپڑے بھیگ جاتے تھے، کبھی سارا مہینہ داغ لگتا رہتا تھا، کبھی ماہواری کے درد سے بے حال ہوتی تھی تو کبھی ماہواری آنے سے پہلے جسم کا تناؤ۔ برسوں ان مسائل میں گھری رہی۔ ایک ہی امید تھی کہ ماہواری کے ختم ہونے کا وقت آئے گا تو جان سہل ہو گی۔ خدا خدا کر کے وہ وقت آیا، میں نے شکر ادا کیا۔ لیکن یہ خوشی چار دن سے زیادہ نہ چلی۔ یہاں تو ایک اور ہی عذاب شروع ہو گیا وہ روہانسی ہو رہی تھیں۔
”وہ کیا؟“
طبعیت انتہائی نڈھال رہتی ہے، کچھ بھی کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ مایوسی، اداسی اور تھکن نے بے حال کر رکھا ہے۔ جی چاہتا ہے بیٹھ کر روتی رہوں، کبھی کبھی تو اپنی جان لینے کو جی چاہتا ہے۔ ہر چیز میں دلچسپی ختم ہو گئی ہے۔ یوں لگتا ہے دنیا میں اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔
جسم ہر وقت یوں ٹوٹتا رہتا ہے جیسے کسی نے روئی کی طرح دھنک دیا ہو۔ اٹھنا بیٹھنا مشکل ہے۔
پیشاب میں تکلیف علیحدہ ہے۔ ویجائنا میں اس قدر جلن ہے کہ کیا بتاؤں۔ شوہر ہاتھ لگائیں تو بدک جاتی ہوں۔
رات کو ایک دم اتنی گھبراہٹ ہوتی ہے کہ ایک دم اٹھ کر بیٹھ جاتی ہوں جی چاہتا ہے کپڑے اتار پھینکوں۔ کبھی پنکھا چلاتی ہوں تو کبھی کھڑکی کھولتے ہوں۔ سر گھومنے لگتا ہے۔
نیند بھی نہیں آتی، پہروں کروٹیں بدلتی رہتی ہوں۔ اگر آنکھ لگ بھی جائے تو بس تھوڑی دیر کے بعد ہی بے چینی سونے ہی نہیں دیتی۔
وزن بڑھتا جا رہا ہے، پیٹ جو کبھی نہیں نکلا، اب لٹک رہا ہے۔ بال گرنا شروع ہو گئے ہیں، منہ پر جھریوں کا جال بچھ رہا ہے۔ بال اس قدر گر رہے ہیں کہ گنج نمایاں ہو رہا ہے۔ چوٹی دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ گویا چوہیا کی دم لٹک رہی ہو۔
اور ڈاکٹر صاحب بھلکڑ اس قدر ہو گئی ہوں کہ سامنے کی بات بھول جاتی ہوں۔ یہ تک یاد نہیں رہتا کہ رات کیا کھایا تھا۔
یہ حال تب سے ہے جب ماہواری ختم ہوئی۔ پلیز کچھ کیجئیے، ماہواری پھر سے چالو کروا دیجئیے۔ گندا خون نکلے گا تو میں ٹھیک ہو جاؤں گی ”
آہ گندا خون۔ ہم نے ٹھنڈی سانس بھری۔
”دیکھئے خون تو وہ گندا نہیں تھا، رگوں میں دوڑنے والا صاف خون ہی تھا“
”پھر ڈاکٹر صاحب میری طبعیت کیوں اس قدر خراب ہے؟“
”آپ اس وقت مینوپاز کی تکالیف کا شکار ہیں۔ اور مینوپاز ایک عورت کے لئے ایسا ہی ہے جیسے کوئی خوش رنگ لباس بوسیدہ ہو جائے اور کپڑے کا ہر ریشہ ہاتھ لگانے سے ادھڑتا جائے“ ہم آہستہ سی بولے۔
ماہواری ختم ہونے کا تو یہی مطلب ہے نا کہ اب بچہ نہیں ہو گا پھر یہ سب تکالیف کیوں؟
” بات کچھ یوں ہے کہ بظاہر دیکھا جائے تو ماہواری کا مطلب یہی ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ ماہواری بذات خود کچھ بھی نہیں۔ یہ تو جسم کے اندر ہارمونز سے چلنے والے مختلف سسٹمز کی نشانی ہے۔ ہر مہینے آنے والی ماہواری یہ ظاہر کرتی ہے کہ بیضہ دانی سے نکلنے والے ہارمونز اور رحم اپنا کام کر رہے ہیں۔ ماہواری کا چکر ہی زندگی کا بہتا ہوا دھارا ہے۔
عمر بھر ماہواری کے مسائل نمٹنے سے خواتین اس قدر تھک چکی ہوتی ہیں کہ ماہواری کا رکنا ان کی خواہشات کی فہرست میں شامل ہوتا ہے لیکن وہ نہیں جانتیں کہ ماہواری ختم ہونے کے بعد کیا ہونے والا ہے؟
سمجھیے جونہی بیضہ دانی میں بننے والے ہارمونز ایسٹروجن اور پروجیسٹرون ختم ہوئے، رحم نے بھی سکون کا سانس لیا اور ماہواری بند ہو گئی۔ ماہواری رکنے کا تو سب نے بہت جشن منایا کہ وہ جس نے مدتوں سے جان عذاب میں ڈال رکھی تھی، اس بیزاری سے جان چھوٹی۔ لیکن اس کے ساتھ ایسٹروجن بھی تو گئی جو زندگی کی علامت ہے۔
ایسٹروجن ہارمون کو اگر آپ سمجھنا چاہیں تو جان لیجیے کہ آپ کی امنگوں، ولولے، خواہشات، ذہانت، پھرتی، صحت اور توانائی کا دوسرا نام ایسٹروجن ہے۔ ایسٹروجن زندگی میں رنگ بھر کر اسے بے کیف ہونے سے بچاتی ہے۔ ایسٹروجن کے ختم یا کم ہو جانے سے وہ دور شروع ہوتا ہے جسے سن یاس کا نام دیا گیا ہے۔ کیا عجب نام ہے، بالکل اسم بامسمی! پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ کیا ہونے والا ہے؟
دوست احباب پوچھتے ہیں کہ قدرتی ایسٹروجن اگر بننی بند ہو جاتی ہے تو ایسٹروجن کی گولیاں کیوں نہ کھائی جائیں؟ ( ایسٹروجن کریم اور جلد پہ لگانے والے پیچز کی شکل میں بھی آتی ہے )
ایسا یقیناً ممکن ہے لیکن اس کے ساتھ بہت سی ایسی قباحتیں شامل ہیں جن پہ عمل کرنا کافی مشکل ہے۔
پہلی یہ کہ ایسٹروجن کی گولی رحم پر اثر انداز ہوتے ہوئے ماہواری کو پھر سے شروع کر دے گی۔ ماہواری کا نظام دوبارہ سے چل پڑنا تقریباً ہر کسی کے لئے ناقابل قبول ہوتا ہے۔
ایسٹروجن کے استعمال کے ساتھ ماہواری روکنے کا بھی ایک طریقہ موجود ہے وہ یہ کہ رحم یا بچے دانی میں مایئرینا ( Mirena ) نامی تار ڈال دی جائے۔ مایئرینا میں موجود ہارمون پروجیسٹرون رحم پر ہونے والے ایسٹروجن کے اثر کو زائل کرتے ہوئے خون نہیں آنے دے گا۔
سنتھیٹک ایسٹروجن کے کچھ اور ایسے سائیڈ ایفیکٹس ہیں جن کا سنتے ہی لوگ ایسٹروجن استعمال نہیں کرنا چاہتے۔ ان میں ہارٹ اٹیک، چھاتی اور رحم کے کینسر ہونے کا بڑھا ہوا رسک ہے۔
ان سائیڈ ایفیکٹس کو دیکھتے ہوئے ایسٹروجن کے فوائد پس پشت نہیں ڈالے جا سکتے۔ سائیڈ ایفیکٹس کی پڑتال مناسب وقفوں سے کر لینے سے ان کا خطرہ ٹالا جا سکتا ہے۔
سائیڈ ایفیکٹس سے نبرد آزما ہونے کی ایک مثال ہم اپنے ہر مریض کو دیتے ہیں آپ بھی سن لیجئیے۔ سڑک پر کسی بھی سواری میں سفر کرنے کا ایک سائیڈ ایفیکٹ حادثہ ہونا ہے لیکن ہم اس حادثے کا رسک لیتے ہوئے بھی یہ سفر کرنا پسند کرتے ہیں۔ یہ بات ہر اس کام کے لیے یاد رکھنی چاہیے جہاں اس کام کا ایفکٹ سائیڈ ایفیکٹ سے بڑا ہو اور وہ کام ہر قیمت پہ کرنا ہو۔
گائناکالوجسٹ ہونے کے ناتے ہمیں ایسٹروجن لینا پسند ہے۔ باقی رہی سائیڈ ایفیکٹس کی بات تو پھولوں کے ساتھ کانٹے تو ہوتے ہی ہیں۔ بس اتنا دھیان کر لیجئیے کہ کانٹے آپ کو زخمی نہ کریں ”۔
ہارمون ریپلیسمنٹ تھیراپی HRT دنیا بھر میں متنازعہ ہے۔ ایک وجہ تو اس بابت ریسرچ کی کمی ہے۔ عورتوں کی صحت اتنی اہم نہیں کہ اس کے لیے جان لڑائی جائے۔ کچھ برسوں پہلے مغرب میں دو بڑی سٹڈیز ہوئیں لیکن وہ بھی پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکیں کہ ان سٹڈیز کو ترتیب دینے میں کافی نقائص پائے گئے تھے۔
ہمارا کہنا یہ ہے کہ جو جسم اس دنیا میں آپ کی سواری ہے، اس کا تیل پانی چیک کرنا اور رنگ و روغن وقت پر کروانا آپ کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ ٹوٹے پھوٹے جسم کے ساتھ سن یاس کے پچیس تیس برس کیسے گزریں گے آخر؟
!ہمارا کہا مانئیے، سن یاس کو سن آس میں بدل دیجئیے

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *