مجھے ماہواری نہیں چاہیے

مجھے ماہواری نہیں چاہیے

اف خدایا، آج تو اتنا برا حال ہے کہ چلا بھی نہیں جا رہا، صفیہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی آ رہی تھی۔ قدموں میں تھکن اور کمزوری دور سے دیکھی جا سکتی تھی۔
کیوں کیا ہوا؟ زاہدہ نے چونک کر پوچھا
”ارے ڈاؤن ہوں نا“
ہائیں، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے سبھی ابھی کچھ ہی ہفتے پہلے تو تم ڈاؤن تھیں، پورا مہینہ بھی نہیں ہوا کہ پھر؟
”یار میرا چھبیس ستائیس دن کا سائیکل ہے نا“ ، صفیہ نے کہا۔
”اف توبہ، شکر ہے کہ میں اس عذاب سے ہر مہینے نہیں گزرتی“
”کیا مطلب؟ کیا تمہیں ہر مہینے ماہواری نہیں آتی؟“ صفیہ چونک کر بولی،
”نہیں یار، مجھے تو کبھی تین ماہ اور کبھی چار ماہ کے بعد آتی ہے“ زبیدہ نے بے نیازی سے کہا۔
”تین چار ماہ کے بعد ۔ مگر یہ تو نارمل نہیں ہے“
” نارمل ہو یا نہ ہو، مجھے تو یہ پتہ ہے کہ زندگی میں ہر ماہ جو ماہواری نام کا عذاب آتا ہے میں اس سے بچی رہتی ہوں“ زبیدہ نے آہستہ سے کہا۔
لیکن یہ صحت کا مسئلہ ہے بھئی۔ ماہواری کی بے قاعدگی بہت سے مسائل کو جنم دیتی ہے
” صحت کے مسائل کو گولی مارو۔ وہ جو ماہواری کے نام سے گھر میں سلوک ہوتا ہے نا، کسی اچھوت جیسا، اس سے تو جان چھوٹ جاتی ہے دو تین مہینے کے لئے“ زبیدہ کا لہجہ رندھا ہوا تھا۔
”کیا مطلب؟“
ہر ماہ ماہواری کے ساتھ ہی میں ایک ایسی مخلوق بن جاتی ہوں جس کے قریب سے اگر کسی کو گزرنا بھی ہو تو ناک پہ رومال رکھ لیا جائے۔
دادی ماہواری کا سنتے ہی وہ حشر کرتی ہیں کہ جی چاہتا ہے اپنے جسم کے اندر سے وہ عضو ہی نکال دوں جہاں سے ماہواری آتی ہے۔
باورچی خانے میں جانا منع، کھانے پینے کی چیزوں کو ہاتھ لگانے پہ پابندی، کھانے پینے پر بھی نظر کہ کیا کھانا ہے کیا نہیں؟ کون سی چیز ٹھنڈی ہے اور کون سی گرم؟
نہانا دھونا منع، ہاتھ ٹھنڈے پانی میں ڈالنا حرام، ٹوائلٹ میں پانی کا استعمال ممنوع!
پیڈ استعمال کرنا پیسے کا ضیاع، گھریلو کپڑا استعمال کرو اور پھر خون سے بھرے اس کپڑے کو دھو کر سکھاؤ اور پھر دوبارہ استعمال کرو۔ دھل دھل کر جب یہ کپڑا دھجی میں بدل جائے تو اخبار کی نہ جانے کتنی تہوں میں لپیٹ کر چوری چوری کوڑے میں پھینکو جیسے نہ جانے کیا گناہ سرزد ہو گیا ہے؟ اور کوئی پوچھے تو کچھ کہنے کی بجائے لب سی لو۔
پھر کسی ناکارہ چیز یا کسی اچھوت کی طرح گھر کے کسی پچھلے کمرے میں پڑے رہو، اگر بھولے سے باہر نکل آؤ اور کسی کے پاس بیٹھنے کی کوشش کرو تو فوراً کہا جائے، ارے تم یہاں کیوں آ گئیں؟
بلکہ ہو سکتا ہے کہ پاس سے گزرنے پر بھی دادی اچھلتے اور ناک سکوڑتے ہوئے اپنے کپڑے یوں سمیٹیں جیسے انہیں تو کبھی ماہواری آئی ہی نہیں۔
اور سنو درد سے تڑپ تڑپ کر جان نکل رہی ہو لیکن ابا اور بھائی کے سامنے نماز پڑھنے کی اداکاری ضرور کرو جیسے انہیں علم ہی نہ ہو کہ ماہواری کس چڑیا کا نام ہے؟
رمضان ہو تو سحری اور افطار میں دستر خوان پر حاضری لازمی تاکہ کسی کو علم نہ ہو کہ گھر کی بیٹی کو ماہواری آئی ہے۔
ماہواری زیادہ گڑبڑ کرے تو ڈاکٹر کے پاس جانے میں بھی اعتراض۔ پھر بہانے بہانے سے یہ کہنا کہ پیٹ میں درد رہتی ہے۔ کمزوری ہو جائے، رنگ پیلا پڑ جائے مگر یہ نہیں کہنا کہ جسم سے خون زیادہ خارج ہو رہا ہے۔ ارے اتنی ہی شرمناک بات ہے تو بعد میں بچہ پیدا ہونے پر ڈھول کیوں بجتا ہے؟
زاہدہ دل گیر لہجے میں کہہ رہی تھی۔
یہ سب مشکلات تو ہیں لیکن ماہواری کا باقاعدگی سے آنا ہی عورت کی ذہنی اور جسمانی صحت کی کلید ہے۔ وہ کیسے پرسکون زندگی بسر کرے گی جس کے جسم کا بنیادی نظام ہی ٹھیک نہ ہو. صفیہ سمجھاتے ہوئے بولی،
ماہواری سے وابستہ ان رویوں کی مار کھانے کے بعد اپنی صحت کسے یاد رہتی ہے بھلا؟ جب اپنی ذات، اپنے وجود کا ہونا ہی ایک سوالیہ نشان بن جائے تو کون اس ماہواری کے فائدے گنے گا بیٹھ کر؟
”دیکھو، ماہواری کا نظام ٹھیک نہ ہو تو حمل ہونا بھی مشکل ہو جاتا ہے“
بہن ہم یہاں خود سے بیزار بیٹھے ہیں کیا کریں گے ماں بن کر؟ ایسی زندگی کسی اور نفس کو دینے کا کیا فائدہ، جہاں عورت کو ان باتوں کا خراج دیتے ہوئے کمتر زندگی گزارنا پڑے جو اسے قدرت کی طرف سے دی گئی ہوں۔ جب وہ پہروں سوچے کہ بنانے والا تو خدا ہے اور یہ سب اس نے اسی طرح ترتیب دیا ہے سو کس بات کی شرم اور کاہے کی حیا؟ زندگی جب بوجھ بنا دی جائے تو کچھ بھی نہیں اچھا لگتا
یہ وہ مکالمہ ہے جس کی بازگشت اکثر سنائی دیتی ہے۔ زندگی کی یہ داستانیں ہمارے ادیبوں کی آنکھ سے بھی اوجھل نہیں رہیں۔ ہماری خوش قسمتی کہ گائنی فیمنزم کا عدسہ ایک طرف ہمیں ان مریضوں کا حال دکھاتا ہے تو دوسری طرف اہل درد کی تحریروں میں چھپا ہوا درد دکھا دیتا ہے۔
دیکھئیے دیورند ستیارتھی اپنے افسانے لال دھرتی میں کیا لکھتے ہیں
‎پہلے روز جب کنیا کو اپنے رجسولا ”( حائضہ) کا پتہ چلتا ہے، وہ کسی نہ کسی طرح فوراً ماں تک یہ خبر پہنچا دیتی ہے۔ تین دن تک اسے ہلدی کے پانی میں رنگی ہوئی دھوتی پہن کر ایک الگ کمرے میں بیٹھنا ہوتا ہے۔ کوئی اسے چھوئے گا نہیں۔ اس کی آرتی بھی دور ہی سے اتاری جاتی ہے
‎کھانے میں بھی رجسولا کو کافی پرہیز کرنا ہوتا ہے۔ سرخ مرچ اور گرم مصالحے اس کے لیے منع ہیں۔ بیٹھے بٹھائے اسے کھچڑی، دودھ اور کچھ پھل مل جاتے ہی
‎تین دن کے بعد کنیا اشنان کر کے پوتر ہوجاتی ہے۔ اس کی وہ پیلی دھوتی گھر کی دھوبن کو بطور تحفے کے دے دی جاتی ہے
ستیارتھی ایک ایسے خاندان کی داستان بیان کر رہے ہیں جو حائضہ سے دوسرے علاقوں کی نسبت بہتر سلوک کر رہا ہے، اور حیض کو مجرمانہ نظر سے نہیں دیکھتا۔
یہ بات ستیارتھی کو منفرد لگی اور انہوں نے عورت کو لال دھرتی سے تشبیہ دیتے ہوئے اس بات پہ افسانہ لکھ دیا کیونکہ زیادہ تر علاقوں میں یہ رسم عام تھی کہ عورت کو حیض یا ماہواری کی دنوں میں بستی سے باہر ایک جھونپڑی میں بھیج دیا جاتا تھا۔ وہاں وہ کسی جنگلی جانور کا شکار بنے یا ماہواری میں زیادہ خون بہہ جانے سے موت کو گلے لگائے، اس سے کسی کو سروکار نہیں تھا۔
پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ گیا۔ زمانہ ڈیجٹل دنیا بن گیا مگر عورت کی ماہواری اور اعضا کا ذکر آج بھی ماتھے پر شکنیں ڈال دیتے ہیں۔ دوسری طرف حمل کی خوشخبری ہر کسی خاندان کے لئے خوشی اور مسرت لے کر آتی ہے۔
صاحبان دانش کیا یہ بات آپ کو عجیب نہیں لگتی کہ معاشرہ کا چلن کیا ہے؟
حیض اور حائضہ کے ذکر سے ناگواری، اس کی صحت سے بیزاری اور حیض کے فیض پر جان قربان!

Similar Posts

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *