ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کی یہ کتاب اس اعتبار سے تو اہم ہے ہی کہ یہ گائنی فیمنزم کی تحریک میں ایک خاص رول ادا کر سکتی ہے ۔ لیکن اس کے علاوہ اس کتاب میں مجھے Ecriture Feminine کی جھلکیاں نظر آتی ہیں جو فرانسیسی ادیبہ اور تانیثی نقاد ہیلن سسکو ( Helene Cixous) سے منسوب ہے ۔
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کی مریضائیں جو زبان استعمال کرتی ہیں اس میں ان کا پوراجسم بھی شامل ہے ۔ یہ تمام مریضائیں جو ان کی کیس ہسٹریس بھی ہیں ، اپنے پوشیدہ لسانی نظام کے ساتھ ہمارے سامنے آتی ہیں ۔ اس پوشیدہ لسانی نظام کے باوصف ہی ان کی ذہنی پیچیدگیوں تک رسائی ہو سکتی ہے ۔ڈاکٹر طاہرہ کاظمی ان عورتوں کی جسمانی تکالیف کا مداوا یا علاج ہی نہیں کرتیں بلکہ بہت ہی لطیف اور ہنرمندانہ انداز میں کونسلنگ کا فریضہ بھی انجام دیتی ہیں جو بظاہر نظر نہیں آتا ۔
ایک پدری سماج میں عورت کس طرح بات کرنے پر مجبور ہے ؟ اپنے دکھوں اور تکلیفوں کے اظہار کے لیے اس کے پاس “ زبان” کونسی ہے ؟ یہ اور اس قسم کے بہت سے سوالات اس کتاب میں بہت ہی بے باکی اور صاف گوئی کے ساتھ اٹھائے گئے ہیں ۔
یہ کتاب اگر محض میڈیکل سائنس کی کتاب ہوتی تو ظاہر ہے میڈیکل سائنس کے علمی ڈسکورس تک محدود ہو جاتی مگر ڈاکٹر طاہرہ کاظمی نے اسے اردو کے ادبی معاشرے کے لیے لکھا ہے جس سے اس کے مطالعے کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے ۔اردو کی تانیثی تنقید کی دنیا میں یہ کتاب بہت آہستگی اور خاموشی کے ساتھ داخل ہوتی ہے اور تانیثیت کے علمی اور فکری ڈسکورس میں گراں قدر اضافے کی حثیت کی حامل ہو جاتی ہے ۔
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی گائنالوجسٹ یعنی ماہرِ امراضِ نسواں ہیں۔ حساس دل اور ذہنِ رسا رکھتی ہیں۔ وہ اپنے مریضوں کے مسائل کو سمجھتی ہیں کہ گھائل کی گت گھائل جانے دوجا نہ جانے کوئے۔ ‘زندگی سے ڈرتے ہو’ ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کی ان مختصر تحریروں کا مجموعہ ہے جو بلاگز کے طور پر معروف ویب سائٹس پر شائع ہوتی رہی ہیں۔ ان تحریروں کا بنیادی موضوع عورت ہے۔ عورت کی صحت، اس کے جسمانی، سماجی اور نفسیاتی مسائل۔ اس کتاب میں خاص طور سے ماہواری پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کی یہ کتاب محض کالموں کا مجموعہ ہی نہیں عورت پر ہونے والے ظلم بلکہ غیر انسانی سلوک کے ہوش ربا، تلخ، تکلیف دہ لیکن سچے واقعات اور نفرت آمیز رویوں کی تاریخ ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے قاری کو پتہ چلتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی دوسری ذلتوں کے ساتھ ساتھ سماجی و معاشی بحران نے خواتین پر جاری مسلسل ظلم و جبر کی لعنت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ عورتوں پر تشدد مثلاً غیرت کے نام پر قتل، جنسی زیادتی اور تیزاب گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور ان واقعات کے خلاف بڑے پیمانے پر کسی قسم کی کوئی تحریک نظر نہیں آتی۔
” میرا نام کہاں ہے؟“ (صفحہ 30 ) ۔ کیا خوبصورت تحریر ہے۔ ”میری بکری، میری گائے، میری بیوی“ عورت کو نجی ملکیت ہی سمجھا جاتا ہے اور یہی سب خرابیوں کی جڑ ہے۔
ڈاکٹر طاہرہ کی کتاب ” کنول پھول اور تتلیوں کے پنکھ“ کی تعارفی تقریب بھی تیرہویں عالمی اردو کانفرنس میں ہوئی۔ کتاب ان مضامین کا مجموعہ ہے جو وقتاً فوقتاً ہم سب پر شائع ہوتے رہے۔ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ تمام مضامین ایک کتاب میں جمع کر دیے گئے ہیں اس طرح مداحوں اور ہم جیسے طالب علموں کو ایک ساتھ مضامین پڑھنے اور سیکھنے کا موقع مل گیا۔
بھیگے پروں والی چڑیا، فرشتہ ہو یا زینب، امرتا پریتم اور بیوی کا دل کیسے جیتا جائے، سچے حقائق اور واقعات پر مبنی کالم ہیں۔ کتاب کے ابتدائی صفحات پر مہناز رحمن، نیلم احمد بشیر، انور سن رائے، ستیہ پال آنند، ڈاکٹر عارفہ سیدہ، وجاہت مسعود اور افتخار عارف نے اپنی رائے دی ہے۔